تہران ( ہمگام نیوز) ایران میں حکام نے پہلی مرتبہ تصدیق کی ہے کہ ستمبر کے وسط میں کردخاتون مہساامینی کی پولیس کے زیرِحراست موت کے بعد شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران میں 200 سے زیادہ افرادہلاک ہوئے ہیں۔
ایران کی سرکاری خبررساں ایجنسی ارناکے مطابق وزارتِ داخلہ کی ریاستی سلامتی کونسل کی جانب سے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق ان ہلاکتوں میں سکیورٹی فورسز،عام شہری، فسادی اورحکومت مخالف مسلح عسکریت پسند شامل ہیں۔
ایرانی حکومت کی جانب سے سرکاری سطح پر پہلی مرتبہ احتجاجی مظاہروں کے دوران میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد جاری کی گئی ہے۔اس سے چند روز قبل سپاہِ پاسداران انقلاب کے ایک سینیرکمانڈر بریگیڈیئرجنرل امیرعلی حاجی زادہ نے کہا تھا کہ مظاہروں میں 300 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ایرانی حکام انھیں ’فسادات‘ قرار دیتے ہیں۔
ریاستی سلامتی کونسل اور پاسداران انقلاب کے کمانڈر کے فراہم کردہ اعدادوشمار انسانی حقوق کی تنظیموں کی بیان کردہ ہلاکتوں کی تعداد سے کہیں کم ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے مظاہروں میں 400 سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا ہے۔
ناروے میں قائم ایران ہیومن رائٹس گروپ (آئی ایچ آر)کے مطابق ایرانی سکیورٹی فورسز نے ستمبرکے وسط میں کردخاتون مہساامینی کی پولیس کے زیرحراست ہلاکت کے ردعمل میں شروع ہونے والے مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن میں 448 افراد کو ہلاک کردیا ہے۔ان میں 60 کی عمریں 18 سال سے کم تھیں۔ان میں 9 لڑکیاں اور29 خواتین شامل ہیں۔
اس نے ایک حالیہ رپورٹ میں کہاہے کہ صرف گذشتہ ہفتے کے دوران میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 16 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ان میں سے 12کردآبادی والے علاقوں میں مارے گئے ہیں جہاں مہساامینی کی موت کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔
اس میں مزیدکہا گیا ہے کہ گذشتہ ہفتوں کے دوران میں مزید ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے اوراس طرح کل ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔اس تعداد میں صرف کریک ڈاؤن میں ہلاک ہونے والے شہری شامل ہیں اورسکیورٹی فورسز کے ارکان شامل نہیں ہیں۔
جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے گذشتہ ہفتے ایران میں کریک ڈاؤن کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کے ایک حقائق مشن کی تشکیل کی منظوری دی تھی جبکہ ایران نے اس کی مخالفت کی تھی۔