برلن (ہمگام نیوز) یوکرین کی شمالی بحر اوقیانوس کے ممالک کے عسکری اتحاد (نیٹو) میں شمولیت کی کوششوں اور اس جہ سے روس کے ساتھ دو سال سے جاری جنگ کے دوران سابق جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے اس حوالے سے حیران کن انکشاف کیا ہے
اگلے ہفتے جاری ہونے والی اپنی یادداشتوں پرمشتمل کتاب جسے “آزادی…یادیں 1954-2021ء” میں میرکل نے انکشاف کیا کہ اس نے روسی فوج کے ممکنہ خدشے کے پیش نظر اپنی مدت کے دوران نیٹو میں تیزی سے شمولیت کے لیے کیئف کی کوششوں کو سست کرنے کی کوشش کی تھی۔
سابق جرمن چانسلر نے وسطی اور مشرقی یورپی ممالک کی نیٹو میں جلد شمولیت کی شدید خواہش کا بھی اعتراف کیا۔
اتحاد کو خطرات
انہوں نے واضح کیا کہ وہ اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ ’نیٹو‘ کی رکنیت میں توسیع سے نہ صرف ان ممالک کے لیے بلکہ مجموعی طور پر اس اتحاد کے لیے سلامتی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
اس نے یوکرین اور روس کے درمیان تعلقات کے بارے میں خاص طور پر تشویش کا اظہار کیا۔انجیلا میرکل نے کتاب میں یوکرین کریمین جزیرہ نما میں روسی بحیرہ اسود کے بحری بیڑے کی موجودگی کا ذکر کیا جسے ماسکو نے 2014ء میں غیر قانونی طور پر اپنے ساتھ شامل کرلیا تھا۔
انہوں نے لکھا کہ نیٹو کی رکنیت کے لیے کسی بھی سابق امیدوار کو ایسے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ یہ فوجی پیچیدگیاں اتحاد کے لیے خطرہ بن سکتی تھیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے لکھا ہے کہ اس وقت یوکرین کی آبادی کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ نیٹو میں شامل ہونے کی حمایت کرتا تھا، جس سے اس کے خوف کو تقویت ملی۔
میرکل نے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ اور کیئف کی نیٹو میں شمولیت کی کوششوں پر بات کرتے ہوئے کہا جنگ کے اخراجات بہت زیادہ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یوکرین اور جارجیا کی رکنیت کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل پیش نہ کرنا ان کے عزائم کے لیے ایک “دھچکا” تھا جبکہ نیٹو کا ان کی مستقبل کی رکنیت کا عمومی وعدہ روسی مفادات کے لیے براہ راست چیلنج ہے جسے وہ صدر ولادیمیر پوتین کے لیے اشتعال انگیزی تصور کرتی ہیں ۔