کوئٹہ ( ہمگام نیوز)وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 1990دن ہو گئے۔ کراچی پریس کلب کے سامنے لگائے گئے کیمپ کا مختلف سیاسی و سماجی شخصیات نے دورہ کرکے اظہار یکجہتی کی، اور ہر قسم کی تعاون کا یقین دلایا۔لواحقین سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے عدم بازیابی کی وجہ سے لوگ شدید پریشانی و ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، روز مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی سے لاپتہ افراد کے لواحقین کو اپنے پیاروں کی زندگیوں کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں۔ کیونکہ مسخ شدہ لاشیں ایسے بلوچ نوجوانوں کی ہیں جنہیں مہینوں، سالوں پہلے انکے گھروں یا دیگر مختلف مقامات سے فورسز نے اغواء کرکے لاپتہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کی اس حوالے سے خاموشی اور دیگر سول سوسائٹی کے لوگوں کی بلوچ لاپتہ اسیران کے حوالے سے باقاعدہ آواز نہ اُٹھانا اُن کی انسان دوستی و میڈیا کی پیشہ ورانہ کردار پر کئی سوالات کھڑا کرتا ہے۔ اظہار ہمدردی کے لئے آنیوالوں سے گفتگو کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمیں ماما قدیر بلوچ اور سیکرٹری جنرل فرزانہ مجید بلوچ، اور سمی بلوچ نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم نے طویل احتجاج، تاریخی لانگ مارچ اور دیگر مختلف ذرائع سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا، اس دوران نام نہاد و بے اختیار سپریم کورٹ، و دیگر ریاستی اداروں کا تجربہ بھی بلوچ قوم کو اچھی طرح سے حاصل ہوا۔ کیونکہ کہ بلوچ فرزندوں کو اغواء کرنے میں ریاستی فورسز ملوث ہیں، اور ریاستی فورسز کی طاقت کے سامنے اور انکی مرضی کے خلاف تمام ادارے بے بس ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ قابض ریاست کے کسی بھی ادارے پر یقین کرکے بلوچ قوم اپنی گزشتہ غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہتی۔ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ اسیران سیاسی قیدی ہیں، ہم دنیا کی مقررہ قوانین کے تحت دیگر مہذب اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ لاپتہ بلوچ اسیران کی بازیابی کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔تاکہ بلوچستان سے 20,000سے زائد لاپتہ فرزندوں کی رہائی و بازیابی کو ممکن بنا کر لاپتہ اسیران کے لواحقین کی پریشانی و ذہنی کوفت کو ختم کیا جا سکے۔