Homeآرٹیکلزوقت اور اس کے بدلاؤں (تحریر: نعیم جان بلوچ)

وقت اور اس کے بدلاؤں (تحریر: نعیم جان بلوچ)

ہمگام کالم:
کہا جاتا ہے کہ دنیا میں ہر چیز کی حد ہوتی ہے ۔جیسا کہ انسانی عمر کی، خوب صورتی کی، جوانی کی، صحت کی، دولت وغیرہ کی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہر وہ جیز جو اپنی حد تک پہنچ جاتی ہے وہ کمزور، بیمار اور آخرکار فنا ہو جاتا ہے یا اس سے ایک نئی اور مفید چیز پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طورپر پرانی عمارت کی جگہ نئی عمارت، پرانی ہر وہ شے جو استعمال ہونےسے قاصر ہوجاتی ہے وہ فانی یا تبدیل ہوجاتی ہے۔ یوں کہیں کہ یہ قدرتی یا سائینسی قانون ہے، بہرحال یہ مادہ پر صرف لاگو نہیں ہوتا بلکہ غیر مادہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
جیساکہ انسانی روایات، معیارات، ثقافت، رسم و رواج وغیرہ پر کیونکہ وہ وقت اور حالات میں مزید انسان کو کارآمد ثابت نہیں ہو تے، مثال کے طور پر، منگولوں میں ایک روايت تھی کہ وہ کپڑے اور برتن نہیں دھوتے تھے کیونکہ ان کی روایت میں تھا اور وہ مانتے تھے اگر وہ کپڑے اور برتنوں کو دھوئیں گے تو ان سے ان کا خدا ناراض ہوجائے گا اور وہ سزا پائیں گے چنانچہ وقت اور حالات نے ان کی مذہبی سوچ بھی بدل ڈالی۔ جب منگول دنیا پرقابض ہوئے اور دنیا جہاں کی آرائشیں دیکھ کر انکے بہت سے مذہبی رسومات بدل گئے بلکہ یہ کہا جائے کہ ان کا مذہب ہی تبدیل ہو گیا غلط نہیں ہو گا۔
اگر ہم اپنی مثال دیں تو ہم  بلوچوں میں پگڑی جو ایک انتہائی اہم اور عزت کی علامت سمجھی جاتی تھی اور اس کو پہننا لازمی سمجھا جاتا تھا لیکن اب تو نہ پگڑی رہی اور نہ اس کو پہننے والے سر کیونکہ وقت اور حالاتِ کی ضرورتوں پر یہ مزید پورا نہیں اترتے تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو کسی مخصوص عمر، جوانی، طاقت، وقت تک کارآمد ہوتے ہیں پھر کبھی نا کبھی اور کہیں نہ کہیں اسے زوال پذیر ہونا پڑتا ہے۔ سب وقت،حالاتِ اور ضرورتیں طےکرتے ہیں۔
اسی طرح ملکوں کے بھی سیاسی، جغرافیائی اورسٹاٹسٹیکل تبدیلیاں وقت، حالات اور ضرورتیں طے کرتی ہیں یا طے کیے جاتے ہیں، جیسے اگر میں قدیم زمانے کی مثال دوں تو سترہویں صدی میں سلطنت عثمانیہ ایک بہترین مثال ہو گی جو اپنے شروعاتی دور میں ایک وسیع رقبے پر مشتمل ہوا کرتا تھا اس سلطنت کی حکمرانی مندرجہ ملکوں پر تھی جس میں یوگوسلاویہ کی ریاستیں، آسٹریا، ھنگری وغیرہ شامل تھے لیکن جیسے کہ میں نے کہا کہ وقت کا تقاضہ ہے کہ یہ سلطنت بھی وقت کی مار کو برداشت نہیں کر سکی وقت کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتے ہوتے منتشر ہوگئی اور آخرکار سن انیسویں صدی میں یہ اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی اور بلا آخر  واپس پرانی حدود تک جا پہنچی۔
اس طرح ماضی کے دو اور بڑی طاقتیں فرانس اور گریٹ برطانیہ  تھے۔ جن کی توسیع پسندی،نوآبادیات اور بربریت کی مثال جدید زمانے میں نہیں ملتی، کہا جاتا ہے کہ برطانیہ دنیا کے اتنے وسیع رقبے پر قابض تھا کہ اس کی نوآبادیاتی ممالک میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی حکومت براعظم ایشیا سے لے کر براعظم یورپ، براعظم افریقہ اور براعظم امریکہ تک تھا
اور فرانسیسی نوآبادیات زیادہ تر براعظم افریقہ کے  ملک تھےاور یہ بڑے ممالک پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں معاشی بحران اور نوآبادیاتی ملکوں میں بغاوتوں کی وجہ سے اپنا روک رکھ نہیں سکے اور آخر کار  دوسری جنگ عظیم کے بعد نوآبادیاتی ممالک ان سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوگئے اور  تقریباً ایک صدی کے لگ بھگ گزارنے کے باوجود یہ نوآبادیاتی ممالک سیاسی اور جغرافیہ مشکلات سے دوچار رہے اور وہ برطانیہ جس کی حکومت لگ بھگ ہر براعظم میں تھی آج ایک چھوٹے سے رقبے پر مشتمل ہے۔
تیسری بہتر ین مثال سابق سپر پاور روس کی ہے جسے وقت نے کم پر حالات نے زیادہ متاثر کیا۔ روس یاسوویت یونین جو ایک وقت میں طاقتور،مضبوط اور اشتراکی ریاست کہلایا جاتا تھا، جس کا ایک وقت میں براعظم ایشیاءاور براعظم یورپ کے کچھ ملکوں پر باقاعدہ حکومت چلتی تھی بلآخر بیرونی مداخلت، معاشی زوال،خانہ جنگی اوردوسرے ممالک میں جنگوں کی وجہ سے آخر کار میخائل گورباچوف کی قیادت میںانيس سواکانوے میں زوال پذیر ہونا پڑا اور اس سے ازبیکستان، ترکمانستان، آزربائیجان، یوکرین وغیرہ ریاستیں وجود میں آئیں اور آخرکار  وقت کا تقاضہ ہی تھا کہ یہ ریاست بھی اپنی پرانی شکل میں  تبدیل ہوگئی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خواہ کوئی روایت ہو، ثقافت ہو، مذہبی رسومات ہوں، کوئی چیز ہو یا کوئی ملک ہو آخر کار زوال پذیر ہونا پڑتا ہے۔لیکن سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر سلطنت عثمانیہ، سوویت یونین، فرانس، برطانیہ اور کوئی بھی ریاست جو ماضی میں زوال پذیر ہوئے ہیں اب بھی ان کا ڈھانچا موجود ہے یقیناً، لیکن اب یہ ممالک اس جغرافیہ میں اپنا فرضی وجود برقرار رکھ پائے ہیں جہاں ان ہی ملکوں کے مقامی باشندے. یا یک نسلی گروہ علاقہ پزیر ہیں یا ابھی تک ان نوآبادیوں تک مشتمل ہیں جو ابھی تک ان سے آزاد ہو نہیں پائے ہیں جیسے کہ برطانیہ کی آخری نوآبادی آئرلینڈ، کیونکہ کوئی بھی ملک جو مختلف نسلوں پر مشتمل یا قابض ہو وہ جلد فا نی ہو جاتی ہے اور اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے تو وہ سارے ممالک جو مختلف روایت، تاریخ اور نسلوں پر مشتمل ہیں وہ جلد زوال پذیر ہو جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر وسطی ایشائی ملک پاکستان جو مختلف نسلوں پر مشتمل ہے روزاول سے اپنی سیاسی، اخلاقی اور زمینی وجود  کو برقرار رکھ نہیں پا رہی ہے۔اسے اپنے وجود کے ابتدائی مرحلے ميں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا پڑا تھا ۔اور یہ ان ملکوں میں سے ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ  اپنے  وجود کو برقرار رکھ نہیں پائے گا اور وقت کے ساتھ ساتھ بدعنوانی، دیوالیہ پن، جانہ جنگی اسے غیر مستحکم کر رہی ہیں اور کریں گی اور آخرکار یہ ملک بھی زوال پذیر ہوگا جیسے کہ روس، یوگوسلاویہ وغیرہ کیونکہ وقت ہر اس اسم یاخلاصہ اسم کو تبدیل کرتی ہے جو وقت کے تقاضے پر پورا نہیں اترتا اور آخر کار وہ فانی ہو جاتاہے۔
Exit mobile version