کابل (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق گذشتہ رات پاکستانی طالبان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ ان کے دو اعلی کمانڈروں کی ہلاکت کابل انٹرکانٹینینٹل ہوٹل کے قریب واقع ہوئی ہے۔
ٹی ٹی پی نے دونوں افراد کی شناخت اور ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے .
تحریک طالبان پاکستان کے ایک ذرائع کے مطابق یہ دونوں طالبان کی مرکزی قیادت کے حکم پر کابل میں ایک ’خفیہ ملاقات‘ کے لیے موجود تھے اور بظاہر مشرقی پکتیکا ولایت سے کابل گئے تھے تاہم یہ واضح نہیں کہ وہ کس سے اور کیوں ملنے والے تھے؟
پاکستانی خفیہ اداراوں کے میڈیا رپورٹس کے مطابق ان افراد کی لاشیں انٹرکانٹینینٹل ہوٹل کے قریبی علاقے سے ملی ہیں۔
واضع رہے یہ ہلاکتیں گذشتہ ہفتے ہوئیں لیکن تحریکِ طالبان پاکستان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدا میں قیادت نے اس خبر کو چھپانے کا حکم دیا تھا۔
ذرائع کے مطابق تحریک طالبان کو ان ہلاکتوں سے دھچکا پہنچا ہے ۔
یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ پاکستانی طالبان کے اہم رہنماؤں کا کابل کا سفر کرنا غیرمعمولی خبر ہے۔
یہ گروپ افغان طالبان سے بالکل الگ تھلگ ہے اور ان کے مقاصد اور حمایتی بھی مختلف ہیں ۔
افغان طالبان جہاں افغانستان میں امریکی قیادت میں موجود غیر ملکی افواج کی حمایت یافتہ افغان حکومت اور سیکورٹی فورسز کے خلاف مزاحمتی تحریک چلا رہے ہیں،جبکہ اس کے برعکس پاکستانی طالبان ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کا ہدف پاکستانی حکام ،فوج اور تنصیبات رہے ہیں۔
پاکستان پر ایک عرصے سے افغان طالبان کی پشت پناہی کے الزامات لگتے رہے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ افغان طالبان نے جواباً پاکستانی طالبان سے تعلق استوار کیا ہوا ہے۔
ٹی ٹی پی کے ذرائع نے تسلیم کیا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ پاکستانی خفیہ اداروں سے منسلک مسلح افراد یا شدت پسند ان ہلاکتوں کے ذمہ دار ہوں۔ ماضی میں بھی افغانستان میں اس قسم کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔
اسی طرح افغان طالبان سے منسلک افراد پاکستان میں ہلاک کیے جاتے رہے ہیں۔ سنہ 2013 میں افغان طالبان کے ایک سینیئر رہنما کو اسلام آباد کے نواح میں ایک تندور پر ہلاک کیا گیا تھا۔
پاکستان ہو یا افغانستان بظاہر دونوں ہی شدت پسند گروپس کی حمایت سے انکار کرتے آرہے ہیں۔کابل میں ان کمانڈروں کی معنی خیز ہلاکت اور پاکستانی فوج کی تحویل سے ٹی ٹی پی کے سابقہ ترجمان احسان الللہ احسان کو دانستہ طور پر فرار کروانے اور افغان طالبان سے امریکی مزاکرات کے کڑیوں اور وقت کا تعین معنی خیز معلوم ہورہا ہیں ۔
تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں ممالک کے سیکورٹی اداروں کے درمیان اعلی سطح پر اپنے باہمی فائدے یا وقتی دباو کو کم کرنے کی خاطر باہمی رضامندی سے ایسے واقعات کا ظہور پزیر ہونا بھی خارج از امکان نہیں !
یہ دونوں افراد کون تھے کم از کم یہ اب واضح ہو چکا ہے۔ پاکستانی خفیہ اداروں اور شدت پسند گروپس کے ذرائع کے مطابق یہ دونوں افراد پاکستانی طالبان کے سینیئر رہنما تھے۔مارے جانے والے ایک شخص کا نام شیخ خالد حقانی ہے۔
شیخ خالد حقانی پاکستانی طالبان کی قیادت میں اہم مقام رکھتے تھے اور ماضی میں اس گروہ کے نائب سربراہ بھی رہ چکے تھے۔ان پر پاکستان میں اہم سیاستدانوں پر ہونے والے حملوں اور سنہ 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے اس حملے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے جس میں 150 سے زیادہ افراد مارے گئے تھے جن میں سے بیشتر نوعمر بچے تھے۔
مارے جانے والے دوسرے شحص قاری سیف یونس ہے جو پاکستانی طالبان کے ایک کمانڈر تھے۔