کوئٹہ (ہمگام نیوز ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بلوچستان میں پاکستان نے جنگل کاقانون رائج کردیا ہے جہاں فوج اور خفیہ ایجنسیاں بلوچ کی خون سے ہولی کھیل رہے ہیں، بلوچستان میں جس طرح پاکستانی ریاست بلوچوں کو اٹھا کر لاپتہ کرتا ہے ایسے ہی انسانی حقوق کے قوانین بھی لاپتہ ہیں۔
نصراللہ بلوچ اور ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں گزشتہ دس سالوں سے وائس فاربلوچ مسنگ پرسن کے نام بلوچ اسیروں کے لواحقین طویل احتجاج پر ہیں، اس علامتی بھوک ہرتالی کیمپ میں اب تک ہزاروں لاپتہ بھائیوں کے رشتہ دار احتجاج ریکارڈ کراچکے ہیں مگر ریاست کے بلوچ کش پالیسیوں پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوا ہے لیکن اپنے پیاروں کی بازیابی کے جدوجہد میں ہماری ماں بہنیں مشکلات اور صعوبتوں کا مقابلہ کرکے چٹان بن کر کھڑی ہیں ۔
ترجمان نے کہا پارٹی وائس فاربلوچ مسنگ پرسنز کے جدوجہد اور استقامت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ہر قدم پر ان کی سیاسی و اخلاقی حمایت کرتا ہے، قومی تحریک میں لاپتہ افراد کے بازیابی کے کوششوں میں لاپتہ اسیروں کے رشتہ داروں کی قربانیاں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے، بلوچ اسیر دنیا کی بدترین اذیتوں کا سامنا کررہے ہیں، پاکستانی درندہ فوج اور ایجنسیاں انہیں انسانیت سوز مظالم کا شکار بناتے ہیں اور ان میں سے اکثریت ٹارچر ہی سے شہید ہوجاتے ہیں، لاپتہ افراد بلوچ قومی روح پر ایسی زخم ہے جسے بلوچ کبھی نہیں بھول پائے گا۔
انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کی احتجاج اور پاکستانی ریاست اور فوج کی بربریت پر پاکستان کی عدلیہ، سول سوسائٹی سمیت ذرائع ابلاغ نے اپنی آنکھیں بند کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ مکمل طورپر ریاست کے ساتھ فریق بن کر بلوچ قوم پر ڈھائے جانے والے مظالم میں شریک جرم ہے۔ پاکستان میں کہیں بھی کوئی قانون نام کی کوئی شئے موجود نہیں ہے، بلوچوں کو اُٹھا کر لاپتہ رکھنا اور لاشیں پھینکنے جیسے سنگین جرائم کی روک تھام یا پاکستان سے سوال کرنے والا کوئی نہیں۔ گزشتہ اٹھارہ سالوں سے جاری مظالم آج اپنی عروج پر ہیں مگر مقامی اور عالمی ادارے خاموشی پر اکتفا کرکے بلوچ فرزندوں کو زندہ درگور کرنے میں اپنی رضامندی کا اشارہ دے رہے ہیں جو ایک انتہائی خطرناک اور بھیانک صورتحال ہے۔ دنیا نے بنگالیوں کے قتل عام پر خاموشی اختیار کرکے پاکستان کو ایک اور قوم کی نسل کشی کی اجازت دے دی جسے پاکستانی آرمی بخوبی سر انجام دے رہی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ایک دہائی سے جاری لاپتہ افراد کے لواحقین کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں مایوس لواحقین کی چیخ و پکار میں ایک دفعہ پھر تیزی آگئی ہے کیونکہ ان کے سامنے عدلیہ، پارلیمانی ادارے اور پارلیمانی جماعتوں کی ہزاروں لاپتہ افرادکے بازیابی کے دعوے جھوٹ اور فریب ثابت ہوچکے ہیں اورحقیقت میں یہ سبھی اس بھیانک اورانسانیت سوز جرم میں برابرکے شریک ہیں بلوچ قوم میں اس بارے میں آگہی ہے کہ ان مظالم میں فوج، عدلیہ، پارلیمنٹ اور وفاق پرست جماعتیں سب ایک ہی صفحہ پر ہیں۔
ترجمان نے کہا آج لاپتہ افراد کے لواحقین اس حقیقت سے واقف ہوچکے ہیں کہ اس ریاست میں قانون و انصاف، عدلیہ اور پارلیمانی جماعتیں فوج کے دست بستہ غلام ہیں اور ہمارے بچوں اور بھائی اسی فوج کے زندانوں میں مقید ہیں، یہی فوج ہماری قاتل ہے۔
انہوں نے کہا کہ شبیر بلوچ، عامر بلوچ، اعجاز بلوچ سمیت کئی لاپتہ بلوچوں کے خاندان وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں سراپا احتجاج ہیں، ان کی پر امن احتجاج کو جس طرح روکا جا رہا ہے وہ نہ صرف قابل مذمت ہے، لوگوں کو اٹھانے کے ساتھ لوگوں سے احتجاج کا حق چھینا جارہا ہے بلکہ اب تو احتجاج اور مظاہرہ کرنے والوں کو ٹارگٹ کرنے کی اشارے محسوس کئے جارہے ہیں اس فوج نے اب تک کوئٹہ، جیونی، مشکے، تمپ، خضدار سمیت مختلف علاقوں میں جلسہ، جلوس، مظاہرین اور کلچرل والے پروگراموں پر پاکستانی فوج لوگو ں کو سرعام گولیوں سے بھون دیا گیا لیکن پاکستانی ریاست کی بھول ہے کہ وہ بلوچ قوم کے حوصلے اور استقلال کو بربریت سے توڑ دے گا تو تاریخ ثابت کرچکا ہے قوموں کی تاریخ میں ایسے مرحلے ضرور آتے ہیں لیکن زندہ قومیں اس سے گزر جاتے ہیں مگر پاکستان تاریخ میں ایک دن ضرور مجرم ٹھہر ے گا اور تاریخ اس سے حساب لے گا۔