کوئٹہ(ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے صوبائی حکام و سیکورٹی اداروں کی مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران بلوچستان میں گزشتہ چار مہینوں کے دوران 92بلوچ فرزندان کی شہادت اور1800سے زائد کی اغواء نما گرفتاری کو آدھا سچ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس دوران ان سے کئی زیادہ بلوچ فرزندان فورسز کے ہاتھوں اغواء و شہید کیے جا چکے ہیں،انہوں نے کہا کہ مختصر عرصے میں بڑی تعداد میں لوگوں کو شہید و اغوا کرنے کا اعتراف اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان میں لوگوں کو قتل کرنے اور اغواء کرنے میں ریاستی فورسز مکمل طور پر آزاد ہیں۔ترجمان نے کہا بلوچستان میں فورسز کے اہلکار انسانی حقوق کے احترام و جنگی قوانین سے بالاتر ہوکر نہتے لوگوں کو شہید کررہے ہیں، اپنے جرائم پرپردہ ڈالنے کے لئے بعد میں انہیں مذاحمت کار ظاہر کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر منان بلوچ جیسے قد آور سیاسی لیڈر اور گزشتہ مہینے بلیدہ، کوہلو میں خواتین و کمسن بچیوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے کے بعد انہیں مذاحمت کار قرار دینے سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے بلوچستا ن میں فورسز کے ہاتھوں نشانہ بننے والے تمام لوگ سیاسی کارکن، خواتین و بچے اور نہتے نوجوان ہیں ۔ بی ایس او آزاد کے ترجمان نے کہا کہ ہم شروع دن سے اس خدشے کا اظہار کرچکے ہیں کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس اور ایپکس کمیٹی کے تحت کی جانے والی قانون سازی بلوچ نوجوانوں کے لاپتہ رکھنے کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لئے کی جارہی ہے ۔ اس قانون کے تحت 90دنوں کی طویل مدت کے بعد فورسز اس بات کے پابند ہیں کہ وہ مغویوں کو عدالتوں میں پیش کریں، لیکن گزشتہ چار مہینوں کے دوران 2000کے قریب اغواء شدگان سمیت گزشتہ سال کے 8000سے زائد گرفتار بلوچوں کو تاحال بازیاب نہیں کیا جا سکا ہے۔ جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان میں ریاستی قانون کو بطور جواز بلوچ نسل کشی کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔بجائے اس کے کہ مغوی بلوچ سیاسی کارکنان کے ساتھ عالمی قوانین کے مطابق رویہ اختیار کیا جائے، ریاستی فورسز اپنی تحویل میں ہی انہیں قتل کرکے ان کی لاشیں پھینکنے کا ارتکاب کررہے ہیں۔ بلوچستان میں فورسز کی تحویل میں شہید ہونے والے ہزاروں سیاسی کارکنان و عام لوگوں کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں جنہیں فورسز نے دن دیہاڑے لوگوں کے سامنے سے اغواء کیا تھا۔بی ایس او آزاد نے کہا کہ بلوچستان میں اس طرح کی پالیسیاں بیرونی سرمایہ کاری کو ممکن بنانے اور بلوچ آبادی کو اقلیت میں بدلنے کے لئے چائنا و دیگر سرمایہ کاروں کی مدد سے کی جارہی ہیں، اس لئے زمہ دار ممالک کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان مسئلے کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔انہوں نے ریاست کی جانب سے جرائم کے مسلسل اعتراف کے باوجود اقوام متحدہ و انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والی تنظیموں کی خاموشی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر مزکورہ ادارے اپنے رویے میں فوری تبدیلی لانے میں ناکام رہے تو ان کی حیثیت غیر موثر رہ جا ئے گی۔