چهارشنبه, جنوري 15, 2025
Homeخبریںپاکستان میں کار انڈسٹری بحران، 225 ارب روپے کا نقصان، 18 لاکھ...

پاکستان میں کار انڈسٹری بحران، 225 ارب روپے کا نقصان، 18 لاکھ افراد بے روزگار ہونگے

کراچی (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے اثرات ،انٹرسٹ ریٹ بڑھنے سے آٹو فناسنگ کی شرح گھٹ جانے،نیز کسٹمز ڈیوٹی بڑھ جانے سے پاکستان کی آٹو انڈسٹری کو شدید بحران کا سامنا ،گاڑیوں کی فروخت میں نمایاں کمی سے مقامی کار صنعت کار شدید مشکلات کا شکار ،آٹو سیکٹر میں آنے والی نئی سرمایہ کاری بھی منجمد ، پاکستان میں آنے والے کئی بڑے برانڈز نے اپنے منصوبے التواء میں ڈال دیئے ۔آٹو انڈسٹری ذرائع کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی فروخت میں 50فیصد کمی ہو چکی ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ صورت حال مزید خراب تر ہوسکتی ہے۔ آٹو سیکٹر سے وابستہ مینوفیکچرز نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے حال ہی میں ایسے کچھ اقدامات بھی کئے ہیں جو آٹو پالیسی 2016~21 (ADP) سے متصادم ہیں اور ان سے مقامی طور پر لوکلائزیشن شدید متاثر ہوئی ہے.

اگر یہ صورت حال برقرار رہتی ہے تو آٹو پالیسی کے تحت 550,000گاڑیوں کی پیداوار کی کوششیں ضائع جائیں گی۔ دوسری طرف گزشتہ چند برسوں میں انڈسٹری کی شرح نمو اور گاڑیوں کی فروخت کم ہونے سے سالانہ تقریباً 225 ارب روپے حکومتی آمدنی کا نقصان اور 18 لاکھ افراد کی روزگار کے مواقع ختم ہونے جیسے اثرات واقع ہوں گے۔ انڈسٹری کو طویل المدت مستقل پالیسیوں کی ضرورت ہے تاکہ طویل المدت سرمایہ کاری منصوبوں کو آگے بڑھایا جاسکے اور ایسا ماحول فراہم ہو جس سے انڈسٹری کے فوائد پاکستان کو حاصل ہوں۔پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن(پاما) کے اعداد و شمار کے مطابق سالانہ بنیاد پر ہنڈا کی فروخت میں 66فیصد کمی واقع ہوئی۔ جولائی 2018ء میں گاڑیوں کی فروخت 4,981یونٹس تھیں جو جولائی 2019ء میں کم ہو کر 1,694 یونٹس تک محدود رہ گئیں۔ اسی طرح ٹیوٹا کی فروخت میں 56 فیصد کمی واقع ہوئی۔ جولائی 2018؁ء میں 5,468کاریں فروخت ہوئیں لیکن جولائی 2019ء میں صرف 1,694 گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں۔ سوزوکی گاڑیوں کی فروخت میں 23فیصد کمی ہوئی ،معاشی حوالے سے یہ کسی المیہ سے کم نہیں!

اس صورت کی وجہ سے کار انڈسٹری کو اپنے آئندہ کے منصوبوں کا دوبارہ جائزہ لینا پڑے گا، اسی طرح مارکیٹ نمو کے حوالے سے نئی کمپنیوں کے تخمینے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ ہر قسم کے خام مال پر پیشگی کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ اور 2.5 فیصد سے 7.5 فیصد ایف ای ڈی کا بجٹ میں اعلان کے بعد نفاذ انڈسٹری کے لیے شدید نقصان کا باعث رہا۔ اسی طرح روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ بھی پاکستانی انڈسٹری کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ آٹو انڈسٹری کے آئندہ کے منصوبے متاثر ہوئے۔تفصیلات کے مطابق رواں برس مقامی آٹو انڈسٹری نے 140 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے جبکہ 1.3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عمل بھی نئی کمپنیوں کی طرف سے ممکن ہوگا، اب سرمایہ کاری کا عمل ٹھہرائو کا شکار ہو گیا ہے اور انڈسٹری نے اپنی پیداوار میں بھی کمی کی ہے جس سے مقامی پرزہ جات کی خریداری میں بھی کمی واقع ہوگی جس کے نتائج بے روزگاری کی صورت میں نکل سکتے ہیں کیونکہ پرزہ جات تیار کرنے والے چھوٹے ادارے کام نہ ہونے کی صورت میں اضافی لیبر کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ جس سے بے روزگای میں مزید اضافہ ہوگا۔ یاد رہے کہ ہنڈا نے اپنے پلانٹ کو 12 روز تک بند رکھا اور انڈس موٹر کمپنی نے پیداواری کام ہفتے میں 5 دنوں تک محدود کردیا ہے۔ یہ صورت حال نئی کمپنیوں کے لیے انتہائی مایوس اور تباہ کُن ہے۔

انڈسٹری کی یہ خراب صورت حال حکومت کے مفاد میں بھی نہیں ہے کیونکہ اس سے 3 ارب روپے کے فی ماہ ٹیکس وصولی میں کمی واقع ہوگی کیونکہ ایک کار کی فروخت سے حکومت کو اس کی قیمت کا 33 فیصد سے 38 فیصد تک ٹیکس کی صورت میں ملتا ہے۔400 مقامی وینڈرز بھی متاثر ہوں گے کیونکہ 50 فیصد سے 60 فیصد تک گاڑیوں کی قیمت میں مقامی طور پر تیار کئے جانے والے پرزہ جات، لوکلائزیشن کی لاگت ہوتی ہے۔ انڈسٹری سے روزگار حاصل کرنے والے 3لاکھ بلاواسطہ اور 25 لاکھ بل واسطہ افراد بھی متاثر ہوں گے۔جس کو پاکستان کیلئے معاشی حوالے سے ایک تباہی ہی کہی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز