رپورٹ: آرچن بلوچ
جنیوا (ھمگام رپورٹ) اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ممبر ممالک نے جمعرات کی 24 تاریخ کو مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد پرامن مظاہرین پر ایرانی سفاکیت کی مذمت کی اور پرتشدد کریک ڈاؤن کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کے لیے ووٹ دیا۔
تہران کی طرف سے بھاری لابنگ اور چین کی طرف سے قرارداد کی زبان کی سختی کو کم کرنے کی آخری لمحات کی کوششوں کے باوجود 47 رکنی کونسل ممبران نے توقع سے زیادہ وسیع اکثریت سے پرامن مظاہروں پر ایران کے پرتشدد ردعمل کی تحقیقات شروع کرنے کی حمایت کی۔ تالیوں کی گونج میں قرارداد کے حق میں 25 ووٹ پڑے، 16 ووٹ غائب رہے اور چھ ممالک جن میں آرمینیا، چین، کیوبا، اریٹیریا، پاکستان اور وینزویلا شامل تھے نے قراداد کی مخالفت کی۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس ووٹ کو سراہا اور کہا کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے حقوق کے اعلیٰ ادارے ’’ایران کی صورتحال کی سنگینی‘‘ کو تسلیم کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ آج قائم کی گئی فیکٹ فائنڈنگ مشن اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ایرانی عوام پر جاری پرتشدد دباو میں ملوث افراد کی شناخت کی جائے گی اور ان کے اقدامات کو دستاویزی شکل دی جائے گی۔ جناب بلنکن نے کہا کہ ایرانی حکام نے مظاہروں کے جواب میں تیزی سے سختی اختیار کی ہے کیونکہ یہ مظاہرے پورے ملک میں پھیل چکے ہیں اور یہ مظاہرے 1979 سے ایران پر حکمرانی کرنے والی تھیوکریسی کے خلاف ایک وسیع تحریک کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
جمعرات کے اجلاس کے دوران، اقوام متحدہ کے حقوق کے سربراہ وولکر ٹورک نے اصرار کیا کہ “طاقت کا غیر ضروری اور غیر متناسب استعمال ختم ہونا چاہیے۔” ٹورک نے 14,000 افراد کی گرفتاری کو حیران کن تعداد بتایا جن میں کمسن بچے بھی شامل ہیں ٹورک نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس نے ایران کا دورہ کرنے کی پیشکش کی تھی لیکن تہران کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا، اس نے مزید کہا کہ امینی کی موت کے بعد سے 300 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ تحقیقات میں مجرموں کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کے لیے شواہد اکٹھے کیے جائیں گے، اس نے یہ واضح نہیں کیا کہ ان پر کس دائرہ کار کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔ ٹورک کا کہنا تھا کہ اگر ہم آج شواہد اکٹھے نہیں کرتےتو متاثرین کو کبھی انصاف نہیں ملے گا۔
ناروے میں قائم ایرانی ہیومن رائٹس گروپ نے مرنے والوں کی تعداد 400 سے اوپر بتائی ہے، جن میں 50 سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق ایران میں کریک ڈاؤن کی مذمت کرنے کے لیے جمعرات کو جنیوا میں مغربی سفارت کاروں کی ایک لمبی قطار لگ گئی۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے بھی قراداد کی کامیابی پرجشن منایا، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسے تاریخی قرار دیا، جبکہ ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ یہ “احتساب کی طرف ایک خوش آئند قدم ہے۔ جبکہ کونسل میں ایران کو چھ ممالک کی حمایت حاصل ہے، جن میں آرمینیا، چین، کیوبا، اریٹیریا، پاکستان اور وینزویلا شامل ہیں، ان ممالک نے الزام لگایا کہ کونسل میں سیاست کیا گیا ہے، اور چین کے سفیر چن سو نے خبردار کیا کہ انسانی حقوق کو دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا آلہ نہ بنایا جائے۔ واضع رہے کہ جن ممالک نے انسانی حقوق کونسل میں ایران کی حمایت کی ہے وہ خود انسانی حقوق کی سنگین جرائم میں مرتکب ہوچکے ہیں۔