لندن (ہمگام نیوز) بلوچ قوم دوست رہنماء حیر بیار مری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، کہ عالمی دنیا کو پاکستان کے حکمرانوں کی مراعات و مفادات کے حصول کی خصلت کو سمجھتے ہوئے ان کی سازشی عزائم سے عالمی امن کو محفوظ رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستا نی حکمران و عسکری قیادت کی یہ نسلی خصلت ہے کہ انہوں نے ہمیشہ سے مفادات و مراعات کے حصول کی خاطر طاقتور اقوام کی خوشنودی کیلئے ان کی تابع فرمانی کی ہے۔ تاریخ کے صفحات پلٹنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے ،کہ محمود غزنوی کی سومنات کے مندر لوٹنے کی مہم ہو ، یا مغلوں کی ہندوستان پر قبضے کی داستان، یا کہ اس سے قبل کے طاقتور اقوام کی ہندوستان پر یلغار کے قصے۔ ہمیشہ سے ہندوستانی پنجابی مسلم نے نہ صرف ان کو ہندوستان پہنچنے کیلئے محفوظ راستہ دکھایا ہے، بلکہ ان کی توپوں کو کھینچ کر دہلی تک بھی پہنچایا ہے۔ اور بدلے میں مراعات و مفادات حاصل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی نسلی خصلت کے بل بوتے پر انہوں نے نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے توسیع پسندانہ عزائم اور منصوبہ بندیوں میں شریک کار بن کر برطانوی قبضہ گیریت کو دوام بخشتے ہوئے اپنی خدمت گزاری کی بناء پر راولپنڈی کو فوجی چھاؤنی بنوانے میں کامیابی حاصل کی۔ راولپنڈی کا یہ جی ایچ کیو آج بھی سازشوں کی آمجگاہ بنا ہوا ہے۔ جس کی دوغلی پالیسیوں کے سبب عالمی دنیا مذہبی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ پاکستان نے برطانیہ کی باجگزاری کرتے ہوئے اس ملک کو توڈا جس کے ساتھ اسکی اپنی ہزاروں سال کی تاریخ تھی ،پاکستان پیسوں ،مراعات ،کی خاطر سب کچھ کرتا رہا ۔حیر بیار نے کہا کہ برطانوی سامراج کے دور عروج میں گریٹ گیم کے تحت جب زار روس کے سلطنت کی سینٹرل ایشیاء تک پھیلاؤ اور اس کے ہندوستان تک پہنچنے کے خطرے کو بھانپ کر برطانوی عسکری قیادت نے اس کے سامنے دیوار کھڑی کرنے کی تگ و دو شروع کی۔ اور بلوچستان پر قبضہ کرکے افغانستان کو اپنے زیر نگین لانے کی کوششیں تیز کردیں۔ تو بھی پنجابی نے برطانوی خدمت گزاری میں پیش پیش رہے کر اس کے حربی و تزویراتی ماہرین کے سامنے اپنی وفاداری ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ انہوں نے کہا کہ جب عالمی قوتوں کے آپس میں ٹکراؤ کی وجہ سے پوری دنیا او ر عالم انسانیت دو عالمی جنگوں کا شکار بنکر انسانی المیہ سے دو چار ہوئے۔ اور برطانیہ سمیت قبضہ گیر قوتیں کمزور ہوکر اپنی نو آبادیوں کو آزادی دینے پر مجبور ہوئے۔ تو ایسے وقت میں برطانیہ کی اس تشویش نے ہندوستان کی تقسیم اور پنجابی کو پاکستان بنا کر دینے کی سازش کو ممکن بنایا۔ جس کے تحت برطانوی حربی و تزویراتی ماہرین نے سوویت یونین اور برطانوی سلطنت کے درمیان گریٹ گیم کے جاری کھیل میں ترکی سے ہندوستان تک کے علاقوں میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کیلئے فوجی اڈوں کے حصول اور حلیفوں کی ضرورت محسوس کرنے کے ساتھ یہ بھی جان لیا کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد ہندوستان کے آزادی پسند برطانوی دولت مشترکہ کے زیر سایہ اس سے دفاعی تعاون کرنے پر آمادہ نہیں ہونگے۔ اس لئے ان کی نظر پنجابی اشرافیہ پر پڑی۔ بلوچ سرزمین 11، اگست 1947کو برطانوی قبضے سے آزادی ملنے کے باوجود 27، مارچ 1948 کو پاکستانی سازشوں کاشکار بنکر پاکستان کی جبری قبضہ گیریت سے دوچار ہوا۔ آج تک بلوچ قوم پاکستانی قبضہ اور جبریت کی جال میں پھنسا ہوا ہے۔ پاکستان بننے کے اس سازش کے دستاویزی ثبوت آج بھی لندن کے برٹش لائبریری کے اورینٹل اور ہندوستانی سیکشن میں محفوظ ہیں۔ حیر بیار مری نے کہا کہ اپنی اسی خصلت کی بناء پر پاکستان آقا بدلنے میں بھی دیر نہیں کرتا۔ دو عالمی جنگوں کے بعد کمزور ہوتے ہوئے برطانوی سلطنت اور امریکہ کے عالمی قوت بننے کے ساتھ ہی پنجابی حکمرانوں نے فوری طور پہ پینترا بدل کر امریکی مفادات کے سائے تلے پناہ ڈھونڈ لی۔ جوزف اسٹالن کے ہمسایہ ممالک میں اپنے اثر ورسوخ کو بڑھانے کے ساتھ تیل سے مالامال ممالک اور اسٹریٹجک و اقتصادی لحاظ سے اہمیت کے حامل بحرِ بلوچ و ہرمز تک پہنچنے اور مشرقی یورپ میں پیش قدمی کی خواہش نے پہلے ہی سے امریکہ و برطانیہ کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد بھی سوویت قیادت کی یہ توسیع پسندانہ خوائش برقرار رہی۔ سرد جنگ کی دو بلاکوں کی اس دنیا میں مفادات و مراعات کے حصول کی خاطر پاکستانی حکمرانوں نے امریکی چھتری کا انتخاب کیا انہوں نے کہا کہ وفاداری نبھاتے ہوئے بحیثیت برگیڈیر ضیاالحق نے 1970 میں اردن کی ایما پر فلسطینیوں کا بے دردی سے قتل عام کروایا۔ جس سے متعلق اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم کا بیان سامنے آیا کہ ’’جتنے فلسطینی ہم نے بیس سالوں میں قتل نہیں کئے، ضیاء نے اتنے گیارہ دنوں میں قتل کروائے‘‘ حیر بیار نے کہا کہ مرد مومن کا لقب پانے والے اسی ضیاء الحق نے افغانستان پر سوویت یلغار کے بعد اسلام کا لبادہ اوڑھ کر امریکی و سعودی عرب کے مراعات کے چھتری تلے مجاہدین کے لشکروں کی پرورش کرکے افغانستان کو بربادی کے دھانے تک پہنچایا۔اور مراعات حاصل کی۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد مراعات کے اس حصول اور افغانستان میں گھناؤنے کھیل کو جاری رکھا گیا اسلامی دہشت گردی اور اسلام کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہوئے پاکستان نے عسکری و سفارتی مدد سے افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم کی،پاکستان اپنے مفادات پیسہ کی خاطر بین القوامی طاقتوں کی دلالی کے لیے مختلف جواز ڈھونڈتا رہا کبھی مذہب کے نام کو اسعتمال کرتا رہا تو کھبی اسی مذہب کے خلاف اعتدال پسندی کا نعرہ لگاتا رہا ،اور روپیہ اور پیسہ کی خاطر لارڈ اور حاکم بھی بدلتا رہا کیونکہ پاکستان کی خصلت دھوکہ ،فریب،اور پنجاب کے مفادات کا ہے ،مذہب کا نام اپنے مفادات کے لیے پاکستا ن نے بہت استعمال کیا ہے 11 ستمبر ۲۰۰۱کے ٹریڈ سینٹر پر حملے سے صورتحال کے بدلتے ہی پاکستان کی پالیسیاں بھی تبدیل ہوئیں۔ اور مشرف نے انہی مجاہدین و طالبان کو ایک طرف مدد بھی دیتا رہا دوسری طرف انکے بہانے امریکہ سے پیسہ بھی لیتا رہا ۔ انہوں نے کہا کہ اب بھی پاکستان کے پنجابی حکمرانوں و عسکری قیادت کی ریشہ دوانیاں جاری و ساری ہیں ۔اب بدلتے حالات کے پیش نظر انہوں نے اپنے پرانے آقا سعودی عرب و امریکہ کو بدل کر چین و روس کے چھتری کا چناؤ کر لیا ہے اس کمیونسٹ چین کا اب وسیلہ بن گیا ہے جس کے خلاف کئی سال تک پروپیکنڈہ کرتا تھا کہ یہ لادین ہیں ،اب اس کے کہنے پر سعودی کی مدد سے کترا رہا ہے ۔ یمن کے مسئلے میں سعودی عرب کے مطالبے کو چین کے کہنے پر خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے فطری خصلت دغا بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے ،کیونکہ اب اسکی ضروریات سعودی سے زیادہ چین پورا کررہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج پنجابی چین کے ساتھ ملکر اپنے مفادات کے تحت بلوچ نسل کشی میں تیزی لا رہا ہے۔ جس کی واضح مثال مکران ،قلات میں حالیہ فوجی اپریشن میں شدت ہے کیوں کہ چین کے توسیع پسندانہ عزائم کو تقویت دینے کیلئے گوادر کو چین کے فوجی بیس میں بدلنے کی خاطر پاکستان نے اپنے تاریخی خصلت کے تحت صرف اور صرف مفادات و مراعات کے حصول کو اولیت دے کر بلوچوں کی قومی آزاد حیثیت کو اپنی فوجی بربریت سے مسخ کرکے بلوچ سرزمین کا چین سے سودا کر لیا ہے، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مہذب دنیا بلوچستان میں چین کے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ ساتھ پاکستان کے غیر فطری کردار کا نوٹس لے اور اس کو روکنے کیلئے اپنا اخلاقی کردار ادا کرے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ منفی عزائم صرف بلوچوں کے بقا کیلئے خطرہ نہیں بلکہ پوری دنیا کے امن کیلئے خطرہ ہے۔