کراچی (ہمگام نیوز) ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کو 14 سال کا طویل عرصہ مکمل ہونے پر انکی بیٹی سمی دین بلوچ اور لواحقین کا بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے ساتھ کراچی آرٹس کونسل تا پریس کلب احتجاجی ریلی اور احتجاجی مظاہرہ –
عید کے دن بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا اپنے پیاروں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف اور انکی بازیابی کیلئے احتجاجی ریلی نکالی گئی، ریلی کی کال ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کو 14 سال مکمل ہونے پر انکی بیٹی سمی دین بلوچ نے دی تھی جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی نے ریلی کی بھرپور حمایت کی اور اسکا انتظام سنبھالا جس میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت سیاسی سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنان نے شرکت کی۔
سمی دین بلوچ کے مطابق اسکے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو چودہ سال قبل 28 جون 2009 کو خضدار کے اورناچ سے دوران ڈیوٹی ریاستی فورسز کے اہلکاروں نے جبراً حراست میں لیکر لاپتہ کردیا جس کا تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا، ان چودہ سالوں میں انکے خاندان کو کوئی بھی رسائی نہیں دی گئی نا انہیں کسی عدالت میں پیش کیا گیا اگر ملکی اداروں کو اپنے قائم کردہ عدالتی نظام اور فیصلوں پہ بھروسہ ہے تو وہ انہیں عدالت میں قانون کے سامنے پیش کیا جائے، اگر اس پہ کوئی الزام ہے تو ان پہ جرم ثابت کیا جائے لیکن اس طرح انکو ٹارچر سیل میں رکھ کر ہمیں شدتِ کرب سے دوچار نا کیا جائے، انکے مطابق انہوں نے اپنی فیملی کے ساتھ ان چودہ سالوں میں احتجاج کے تمام تر جمہوری اور آئینی زرائع بروئے کار لائے ہیں، کورٹس، کمیشن، پٹیشن سمیت تمام قانونی چارہ جوئی بھی استعمال کیے ہیں، ان چودہ سالوں میں ہر بدلتے حکومتی سربراہان وزرا اور اعلیٰ حکام سے بھی ملاقاتیں کی ہیں جو مسلسل ہمیں جھوٹے تسلیاں دیکر چھپ کراتے رہے ہیں
آج عید کے دن جب تمام مسلم امہ اپنوں کے ساتھ عید کا اسلامی تہوار عقیدت و احترام میں اپنوں کے ساتھ گھر بیٹھ کر منا رہے ہیں لیکن ہم بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین سڑکوں پہ پریس کلبوں کے سامنے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے سراپا احتجاج ہیں، ہمیں سڑکوں پہ آنے چیخنے رونے کا کوئی شوق نہیں ہم ان معزز خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو کبھی گھر والوں کے بنا گھر کے باہر نکلے نہیں ہیں لیکن آج انتہائی مجبوری اور تکلیف میں ہیں کہ اپنے گھر کے کفیل کو ڈھونڈنے احتجاج کر رہے ہیں،
حسب معمول اس عید کے پرمسرت دن پہ پورے پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف انکے لواحقین احتجاج کر رہے ہیں اور اس میں سیاسی سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنان، صحافی برادری اور درد دل رکھنے والے انسانیت پسند لوگ ہمارے آواز سے ہم آواز ہیں اور ریاستی اداروں سے یہ اپیل کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ سمیت تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے اور جبری گمشدگیوں کے غیر انسانی اور غیر قانونی عمل کو روکا جائے –
احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سمی دین بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ ہم اس ملک کے قانون اور آئین کو مانتے ہوئے انصاف کے طلبگار ہیں، لیکن اس ملک کے ادارے اپنے ہی آئین کو ماننے سے قاصر ہیں، ڈاکٹر دین محمد بلوچ جو پیشے کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر ہیں وہ اپنے ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے جب انہیں غیر قانونی حراست میں لیکر لاپتہ کردیا گیا، آج چودہ سالوں حراست میں ہیں، قتل کے ایک مجرم پہ کیس ثابت ہونے پر جو عمر قید کی سزا دیجاتی ہے وہ مجرم بھی اتنے عرصے میں اپنا سزا پورا کر چکا ہوتا ہے لیکن ڈاکٹر دین محمد کو اب تک منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے جو اس ملک کے ایک آزاد جمہوری اور خود مختار ریاست ہونے پہ ہی سوالیہ نشان ہے، اس ریاست میں انکے اختیار دار صرف جھوٹی تسلیاں دیتے رہتے ہیں اور جھوٹے دعویٰ کرتے رہتے ہیں –