شال :(ہمگام نیوز) جبری لاپتہ افراد اور شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کے 5674 دن مکمل ہو گئے۔ بارکھان سے سیاسی و سماجی کارکنان دادمحمد بلوچ، صورت خان بلوچ، مٹھاخان بلوچ نے وی بی ایم پی کے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔ اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پارلیمنٹرینز یہ کہتے نہیں تھکتے کہ کہیں کوئی فوج کشی نہیں ہوا اور نہ ہو رہا ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
گزشتہ تین مہینوں میں ڈیرہ بگٹی، پنجگور، کیچ، گوادر، تمپ، مند، قلات، مستونگ، جھاؤ سمیت بلوچستان کے کئی علاقوں میں فوج کشی کرکے سینکڑوں بلوچ جبری لاپتہ کیے گئے جبکہ درجنوں افراد کو شہید کیا گیا ہے۔ پارلیمنٹرین کے ہاتھ اپنے دورِ حکومت میں اب تک ہزاروں بلوچ فرزندوں کے لہو سے رنگین ہیں۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ قوم کو بےوقوف سمجھ کر جس دیدہ دلیری سے جھوٹ بولا جا رہا ہے، اس کی نظیر نہیں ملتی، جبکہ اب بھی ڈیرہ بگٹی میں آپریشن شدت سے جاری ہے۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق کئی بلوچ فرزندوں کو جبری اغوا کے ساتھ شہید بھی کیا گیا ہے۔ گزشتہ مہینوں میں پنجاب کی مختلف یونیورسٹیوں میں بلوچ طلباء پر حملے اور جبری لاپتہ کرنا بھی بلوچ نسل کشی کی پالیسیوں اور حق کے لیے آواز بلند کرنے والی آواز کو دبانے کی کوشش ہے، جو روزِ اول سے سامراجی قوتوں کا وطیرہ رہا ہے۔
بلوچوں کے جبری اغوا کے اعداد و شمار ان حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہیں جو پاکستانی آسائش کی آڑ میں پاکستانی فوج سے بھی بڑے گناہ کے حامل ہیں۔ یقیناً تاریخ کے اوراق ایسے لوگوں کو دلال، ایجنٹ اور کئی دیگر برے القابات سے یاد رکھے گی۔ مگر اس سے پہلے بلوچ قوم، جو آج اپنی قومی بقا کی جستجو میں فرزندوں کی بے حساب قربانی دے رہی ہے، ایسے افراد کو تاریخ ساز سبق ضرور دے گی۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ ریاستی مشینری کے اہم کارندے اپنی چال بازیوں سے ریاست کے بہترین دلال بننے کی سعی میں ہر شے کر گزرنے کی منطق پر قائم ہیں اور اپنی سرکار بچانے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کافی عرصے سے فوجی جارحیت کا دفاع کرتے ہیں لیکن بلوچ نسل کشی، فرزندوں کے جبری اغوا اور مسخ شدہ لاشوں کا سرعام انکار بھی کر
تے ہیں۔