Homeآرٹیکلزگوریلا جنگ کا گمنام کردار شہید زبیر، تحریر : مہراب مہر

گوریلا جنگ کا گمنام کردار شہید زبیر، تحریر : مہراب مہر

گوریلا جنگ کا گمنام کردار شہید زبیر
تحریر : مہراب مہر
وقت گزرتا رہا پھر اس سے ملاقات پہاڑوں میں ہوئی وہ کچھ دنوں کے لیے آئے تھے لیکن وقت و حالات نے اسے رکنے نہ دیا وہ پہاڑوں کی پرسکون و خاموش زندگی کو دیکھ نہ سکے بلکہ اگلے ہی دن وہ واپس شہر کے شور و غل میں چلے گئے وہ پھر سے اپنی بہادری کے جوہر دکھاتے رہے اور دلیری کے ساتھ دشمن پر وار کرتے رہے وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے بخوبی واقفیت رکھتے تھے اور ہرچیز پر اسکی باریک نظر تھی لیکن چھوٹے سے شہر میں گوریلا کاروائی کتنا ہی محتاط کن انداز میں ہو لیکن پھر بھی کوئی نہ کوئی دن تو گا جب آپ منظرعام پر آئیں گے اسی طرح ایک واقعے میں ایکسیڈنٹ کرنے کے بعد وہ کچھ لوگوں کی نظر میں آئے تھے اور 26 اکتوبر 2010 کو کوئٹہ سے اپنے علاقے  کردگاپ ضلع مستونگ کی طرف جارہے تھے کہ دشمن نے انہیں روکنے کی کوشش کی وہ سمجھ چکے تھے کہ اب ایک اور آزمائش سے گزرنے کا دور آگیا ہے وہ بغیر اسلحمیں روپوش ہ کے دشمن سے لڑے تاکہ فرار ہو سکے لیکن وہ گرفتار کر لیے گئے اور پھر دشمن کو اس نے عقوبت خانوں میں شکست دینے کی کوشش کرتے رہے وہ ٹارچر ہوتے رہے معصومیت کا وہ چہرہ اب مزید معصومیت سے انکاری ہو کر غصہ و درد کے آثار لیے دشمن کے مدمقابل پابہ زنجیر تھا. وہ اپنے پختہ فکر کے ساتھ دشمن کے سوالوں کا جواب تلخی سے دیتا رہا اسکی چیخ و پکار وطن کے فضاؤں میں گونج کر اسکی وطن سے محبت کی درد بھری کہانی بیان کر رہی تھی. وہ دو مہینے سے زیادہ ریاستی عقوبت خانوں میں  زندگی و موت سے بغل گیر ہوتے رہے
وہ کردگاپ میں میر غلام ربانی سرپرہ کے گھر میں 1984 کو پیدا ہوئے تھے ان کی والد  نیپ کے ساتھ سیاست میں  رہے تھے اور بلوچ سیاست میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ۔ گھر میں ہی اسے سیاسی ماحول نصیب ہوئی وہ ابتدائی  تعلیم  گاوں کے سکول کردگاپ سے حاصل کی اور پھر مزید تعلیم کے لیے وہ کوئٹہ منتقل ہوئے وہ اسکول میں پوزیشن اولڈرر رہے وہ ذہین تھے اور پڑھنے لکھنے کے ساتھ وہ شکار کے بے حد شوقین تھے وہ فٹبال بھی بڑے شوق سے کھیلتے تھے بچپن سے نوجوانی تک اس کی زندگی کا سفر سادہ رہا لیکن اسکے دماغ میں ہمہ وقت بلوچ وطن پر قبضہ گیریت کا کلنک کھٹکتا رہا اور جب نوجوانی کے دنوں میں وہ کالج میں پڑھ رہا تھا تو بلوچ تحریک آزادی کے لیے پہاڑوں سرمچار و شہروں میں گوریلا کارروائیوں نے اس کے دل میں امید کی شمع جلادی اور وہ آزادی کی آگ سینے میں جلائے غلامی سے آزادی کی طرف اپنا سفر جاری رکھا اور 2006 کو وہ باقاعدہ تحریک کا حصہ بن گئے اور مخلصی کے ساتھ جہد آزادی میں اپنا بہادرانہ کردار ادا کرتے رہے اور مختلف محاذوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے رہے وہ اپنی قابلیت  صلاحیت کے بل بوتے پر بی ایل اے کے گروپ کمانڈر کی حیثیت سے پانچ سال تک دشمن پر مختلف طریقوں سے حملے کرتے رہے وہ شہری گوریلا جنگ میں مہارت کے نقطے تک پہنچ چکے تھے وہ انتہائی کم وسائل سے دشمن کو زیادہ نقصان دینے کا فن بخوبی جانتے تھے وہ بندوق پر مہارت رکھتے تھے۔ کیونکہ وہ ایک شکاری رہے تھے اور اسکا نشانہ کھبی چھوکتا نہ تھا وطن کا یہ عاشق بہادری کے ساتھ اپنا فرض نبھاتا رہا لیکن قسمت نے اسکا ساتھ نہ دیا اور وہ دشمن کے عقوبت خانوں میں انسانیت سوز مظالم برداشت کرتے رہے اور دشمن نے وطن کے اس سچے عاشق کو انسانیت سوز ٹارچر کے بعد 26 دسمبر 2010 کو اسکی لاش مستونگ میں پھینک دی اور وطن کا یہ عاشق ہمیشہ ہم سے جدا ہوا اور اپنی وطن سے بے پناہ محبت کی تلخ یادیں چھوڑ کر تاریخ کے اوراق میں نمایاں مقام کے ساتھ امر ہوگیا۔
Exit mobile version