میں ذہرا محمدجان ایک گھریلو خاتون ہوں، میرا تعلق ضلع کیچ کے علاقے گیبن سے ہے۔ ہمارے اہلخانہ محنت مزدوری کرنے والے لوگ ہیں جس سے ہمارا گزر بسر ہوتا ہے۔
آج آپ صحافی حضرات سے روبرو ہونے کا مقصد ہم پر گزرنے والی ایک واقعے کی نشاندہی کرنا ہے جوکہ آپکے اخبارات یا چینلز کی شہہ سرخیوں سے یکسر غائب ہے اور بلوچ قوم اس سے ناواقف ہے۔ امید کرتی ہوں کہ اس پریس کانفرنس کے توسط سے آپ ہماری آواز عوام الناس اور حکام بالاء تک پہنچانے میں ہماری مدد کرینگے۔
محترم صحافی برادری !
آج سے تین ہفتے قبل یکم جولائی کو رات کے قریب تین بجے چند مسلح افراد بھاری ہتھیاروں کے ساتھ ہمارے گھر گیبن میں گھس آئے، جنہوں نے ہمارے خوابگاہوں پر اندھا دھند فائرنگ کی، جس سے ہم پر قیامت کا سماں چھا گیا۔ خواتین و بچے خوف سے بلبلا اٹھے جبکہ گھر کے مرد اپنی جان بچاتے ہوئے سہارا ڈھونڈتے رہ گئے۔ اسی دوران ہمارے گھر کے بزرگ ستر سالہ واجہ محمد جان کو ان مسلح افراد نے گولی مار کر زخمی کردیا اور بھرپور خوف و ہراس پھیلانے کے بعد چلے گئے۔
یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ جسکی نظیر بلوچ قومی روایات میں کہیں نہیں ملتی۔ بلوچی چادر و چاردیواری اور قومی اقدار کو روندنے والے یہ مسلح افراد بلوچی پوشاک و لباس میں تھے۔ انڈر ورلڈ کے غنڈوں کی طرح گھروں میں گھس کر بلوچی و اسلامی روایات کو پامال کرنا انتہائی افسوسناک و شرمناک عمل تھا۔
بہرحال ان قیامت خیز لمحات سے گزرنے کے بعد گھر والوں نے ہمارے کماش محمد جان کو اٹھا کر تربت ہسپتال لے گئے تاکہ انکی جان بچائی جا سکے۔ تب تک صبح کی روشنی ہوچکی تھی۔ تو ہم گھر کی خواتین اکھٹے گھر سے نکلے کہ ہسپتال جا کر تربت میں اپنے والد کی عیادت کرینگے۔ اس دوران گھر کے صحن تک ہم عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ پہنچے ہی تھے کہ مسلح دہشتگردوں کی جانب سے پہلے سے بچھائے گئے بارودی سرنگ کی زد میں میری 27 سالہ بہن عائشہ اپنے دو کمسن بچوں کے ساتھ آئیں اور وہ اپنے 8 و 4 سال کے دونوں بچوں کے ساتھ بلاسٹ سے ریزہ ریزہ ہوگئیں۔ قیامت پر قہر یہ تھا جو اب ہم پر نازل ہوا تھا۔ ہمارے سامنے ہماری بہن اپنے بچوں کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئیں۔ ایک خاتون اور معصوم بچے بارودی سرنگ سے اڑا دیئے گئے۔ کس طرح کی دنیا میں ایسا کام ہوتا ہے؟ کہاں گئے ہمارے قومی روایات؟ کہاں گئی انسانیت؟
صحافی بھائیو!
یہ داستان جو آپکو بتائی گئی شاید معمول کی ایک پریس کانفرنس لگتی ہو، مگر یہ ایک گھر، ایک خاندان، ایک کنبہ اور خاص طور پر قومی اقدار اور بلوچی ننگ و ناموس کے چھیتڑے اڑانے کی کہانی ہے جو افسوسناک طور پر بےحس سماج اور میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہی۔ نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں نے اس عظیم سانحے پر افسوس کے دو لفظ بھی بیان نہیں کیئے۔
تین ہفتوں تک ہم بے یار و مددگار انتظار کرتے رہے ہیں کہ کہیں سے کوئی زمہ دار ادارہ اس واقعے کی سراغ لگا کر ہمیں بتائے گا اور ہمیں انصاف دے گا مگر ہر طرف خاموشی ہے۔
ہاں یہ ہمیں بیشک معلوم ہے کہ بلوچ کے نام پر ہتھیار اٹھائے مسلح افراد میں سے ہی یہ ایک گینگ تھا جو اپنی ذاتی انا اور ضد کی بنیاد پر تمام روایات کو پامال کرکے ہم پر قہر برپا کر گیا مگر اس پر قومی جماعتوں اور سیاسی حلقوں کی خاموشی اور ہمارے تکلیف کی سنوائی نہ ہوئی یہ زیادہ افسوسناک امر ہے۔
اس ضمن میں آج ہم بذریعہ پریس کانفرنس بلوچ کے نام پر سیاست کرنے والے یا جنگ کرنے والے تنظیموں سے سوال کرتے ہیں کہ ہم عورتوں و بچوں کا قصور بتایا جائے کہ ہم پر ایسی قیامت کیوں ڈھائی گئی؟ بلوچ ننگ و ناموس کا راگ الاپنے والے ہمیں بتائیں کہ گھر میں سوئے خواتین و بچوں پر بمباری کرنا اور بزرگوں کو گولیوں سے چھلنی کرنا کیا ننگ و ناموس کی تحفظ کے زمرے میں آتا ہے؟ کیا بلوچ سرزمین کے وارث محض چند گروہ ہیں، باقی بلوچ اس سرزمین پر کوئی حق نہیں رکھتے؟
طاقت کی جنگ میں قومی لج و حیاء کو پامال کرنے والوں کا احتساب کون کرے گا؟ یہ سوال ہم بلوچ قوم کے سامنے رکھتے ہیں۔ اور حکومت سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ ہمیں انصاف دیا جائے۔ ہم پر ہونے والے ظلم کا حساب لیا جائے۔