Homeآرٹیکلزیار باشوں کی الجھن یا مجبوری، حسن نصراللہ اور یحیی سنوار، شہید...

یار باشوں کی الجھن یا مجبوری، حسن نصراللہ اور یحیی سنوار، شہید یا پراکسی۔ تحریر: رزاک بلوچ

پراکسی یا اتحادی، مالی اعانت اور فیصلہ سازی کی مرکزیت، یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو باہم تعلق رکھتے ہیں اور بہت باریک انداز میں ان پر سوچ و بچار کریں تو یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ کیا محض مالی اعانت اور سیاسی و اخلاقی حمایت دینے سے کوئی کسی کو اپنا پراکسی بنا سکتا ہے یا پھر مفادات کہ باہم ملاپ ہی وہ کڑی ہے جسکی بنیاد پر کسی کا پراکسی ہوئے بغیر امداد و حمایت لی جاسکتی ہے؟ جب تک فیصلہ سازی کی مرکزیت برقرار ہے تو کوئی بھی مالی معاونت یا حمایت کسی کو کسی کا پراکسی نہیں بنا دیتا، لیکن کسی اور کی دی ہوئی احکامات کی بنیاد پر اجتماعی مفادات کو ترک کرکے اپنے ہی مفادات کی حصول کو یقینی بنانے کے لئیے فیصلہ سازی کی مرکزیتی نقطے سے ذرا سا بھی پیچھے کھسک جانا بندوق برداریت اور پراکسی بن جانے کی شروعات ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ ہمارے یارباش ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر بر سرِ پیکار بیشتر بلوچ مزاحمت کاروں کو محض اس بنیاد پر ڈس اون کرتے ہوئے انکے حوالے سے ناپسندیدگی کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ وہ ایرانی شیعہ ریاستی جبر کے خلاف علاقائی سطح پر موجود سعودی سنی گروہی مفادات کے ساتھ مذہبی بنیادوں سے متعلق ہیں یا ایک ممکنہ نسبت رکھتے ہوں، تو دوسری طرف انہی کا حزب اللہ کے سربراہ متوفی حسن نصراللہ کو نہ صرف شہید کہنا بلکہ اسے عسکری حکمت عملیوں کے باوصف اور نظریاتی بنیادوں پر دنیا کے صف اول کے جنگی رہنمائوں کے ساتھ شمار کرنا محض اس حقیقت کو درشاتا ہے کہ وہ یہ سب کچھ محض ایرانی مفادات کے بارِ گراں کو ڈھونے کے لیے ہی کررہے ہیں وگرنہ یارباش اپنی مذہب بیزاری اور مذہبی ناپسندیدیگیوں کے باوصف حسن نصراللہ کو بھی ویسے ہی دیکھتے جیسے کہ وہ مقبوضہ بلوچستان کے اندر بلوچ جہد کاروں کو دیکھتے ہیں، دراز ریش، بلند پائچے، اور قومیت سے زیادہ مذہبیت۔

البتہ وہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ بلوچ و ایران کے درمیان شیعہ سنی تضادات کا ہونا ایک فطری عمل ہے کیونکہ اس عملی میدان کا حقیقت یہی ہے کہ صد در صد بلوچ سنی اور سو فیصدی گجر شیعہ ہیں جہاں ثقافتی، لسانی، معاشرتی، معاشی و سیاسی ٹکراؤ بلوچ و گجر کے درمیان موجود ہے وہیں ان تمام قومی ڈھانچے کی تشکیلی عناصر کے عین برابر مذہبی ٹکراؤ بھی موجود ہے، لیکن پاکستان و بلوچ کےمابین یہ مذہبی ٹکراؤ موجود نہیں، کیونکہ پاکستانی ایلیٹ کلاس سے لیکر پاکستانی نام نہاد ریاستی نظریات کی بنیاد ہی اکثریتی سنی فرقے سے در آتی ہے اور وہیں مقبوضہ پاکستانی بلوچستان کے اندر اکثریتی مذہب سنی فرقے پر مشتمل ہے۔

اب حیرانگی کی بات یہی ہے کہ یارباشوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ بلوچ سیاسی کارکن اپنے ماضی کی تلخ تجربات اور پے در پے بد عہدیوں کی تسلسل سے بہت کچھ سیکھ اور سمجھ چکے ہیں اور انہیں یہ کامل یقین ہے کہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر شہید ہونے والے بلوچوں کو مذہبی، دراز ریش اور سعودی پراکسی کہنے والے جب لبنان کے اندر لڑنے والے حسن نصراللہ کو شہید اور اعلیٰ عسکری کمانڈر اور مدبر رہنما کہہ کر یاد کریں گے تو ان مجبوریوں کی بنیاد وہی ہے کہ جن مجبوریوں کی بنیاد پر انہوں نے دوہزار چودہ سے آج تک ایرانی مقبوضہ بلوچ سرزمین پر ایرانی قبضے کو تسلیم کر لیا ہے۔

ستم بالائے ستم یہ کہ یارباش حسن نصراللہ کی ایرانی بندوق برداری اور حماس کی ایرانی حمایت و اتحاد کو بلوچ رہنماؤں کی اس بات سے نتھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ “ پاکستان کے خلاف اگر ہمیں شیطان بھی مدد کرے تو ہم وہ مدد بھی قبول فرمائیں” اب بلوچ آزادی پسند یقینا ًایران کو شیطان سے کہیں آگے سمجھتے ہوئے اپنی اس بات پر ایرانی امداد قطعاً مراد نہیں لے رہے تھے۔کیا واقعی حزب اللہ ایک ایک لبنانی مزاحمتی گروہ ہے؟

حزب اللہ، ایران رشتے کا تاریخی پس منظر

جب انیس سو اناسی میں ایران کے اندر نام نہاد اسلامی انقلاب آیا تو اسکے لگ بھگ چھ سال کے بعد لبنان کے اندر پندرہ سالہ خانہ جنگی کے دوران انیس سو پچاسی میں حزب اللہ کی تخلیق ہوئی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جب حزب اللہ انیس سو پچاسی میں بنائی گئی تو اسی دوران اس تنظیم نے اپنی علاقائی سیاسی و عسکری جد و جہد اور پالیسیوں کے حوالے سے ایک منشور ( مینوفیسٹو) شائع کردی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ ایرانی اسلامی انقلاب کی روایت پر چلتے ہوئے لبنان کے اندر ایرانی طرز کا ایک شیعہ ریاست قائم کریں گے، اسکے علاوہ اس منشور میں انہوں نے نہ صرف ایرانی اسلامی انقلاب کے رہنما “ روح اللہ موسوی خمینی “ عرف عام میں خمینی کا باقاعدہ بعت کا اعلان کیا بلکہ اسرائیل سے لڑنے اور اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ ان لبنانی اور فلسطینی علاقوں کو واگزار کرنے کا عہد بھی کیا گیا تھا جو اسرائیل نے مختلف ادوار میں اپنے قبضے میں لئے تھے۔

انیس سو پچھتر میں شروع ہونے والی اس پندرہ سالہ لبنانی سول وار میں کرسچن ایلیٹ کلاس کی “لبنانیز فرنٹ، سیکولیر بائیں بازو اور سنی مسلمانوں پر مشتمل “لبنانیز نیشنل موومنٹ” جوکہ عرب نیشنلزم کے حامی تھے، لبنان کے شعیہ فرقے اور وہاں موجود فلسطینی سنی ( خاص کر پی ایل او) پناہ گزینوں کی “افواج الموقوامہ اللبنانیہ” سمیت اسرائیل اور شام بھی شامل تھیں، فلسطینی پناہ گزینوں کی تنظیم پی ایل او اور لبنانی شیعوں کی طرف سے لبنانی سرزمین کو استعمال کرنے اور اسرائیل پر حملہ آور ہونے کے رد عمل میں اسرائیل اس خانہ جنگی میں انیس سو بیاسی میں شامل ہوگیا جسے اسرائیل کی لبنان پر دوسرے حملے کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

جب ایرانی اسلامی انقلاب آنے کے بعد شیعہ رجیم ایران میں قائم ہوگئی تو ایران کے لیے ریاستی بنیادوں پر اسرائیلی مخاصمت کا نعرہ بہت ہی دلکش ثابت ہوا، ایک تو علاقائی سطح پر موجود شیعہ اور سنی سمیت تمام بائیں بازو کی سیاسی حمایت کا حصول اور دوسری جانب ایران کے اندر اپنے مذہبی نظام کو ایک بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کہ ہم کیا ہیں اور کیا کرنے آئے تاکہ ہمارے اس مذہبی سیاسی ( تھیوکریٹک) پروگرام کو ایک بنیاد مل سکے۔

ایرانی انقلاب کے دس سالوں بعد جب انیس نواسی میں “ تائف معاہدے “ کے بعد شام کے سرپرستی میں تمام لبنانی گروہوں کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے شام کو اس امن عمل کا سرپرست بنایا گیا تو کارنیگی اینڈوائنمٹ کے رپورٹ کے مطابق شامی حکومت نے ایرانی ریاستی شیعہ رجیم کی سرپرستی میں ( گوکہ شامی حکومت اس وقت سنی یا سیکیولر تھی لیکن عراقی صدر صدام حسین کو مشترکہ دشمن اور حریف سمجھنے کے باوصف ) نہ صرف حزب اللہ کی طاقت میں غیر معمولی اضافے کا ذریعہ پیدا کیا بلکہ اس نے ایک مسلم عیسائی لبنانی سماج کے اندر ایک اور تناؤ کو جنم دیا جو کہ مسلم فرقہ واریت “ شیعہ اور سنی “ کے درمیان تھا، اس تناؤ میں مزید آگ تب بھڑکی جب لبنان کے سنی فرقے سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رفیق الحریری کو قتل کیا گیا، اس سے لبنانی معاشرہ کئی سمتوں میں بھٹ گیا اور اسی تناؤ کے دوران شامی فورسز کو لبنان چھوڑ کر واپس جانا پڑا، انیس نواسی سے لبنان پر امن قائم کرنے کے نام پر قابض تھے جو دراصل ایرانی شیعہ رجیم کے ایما ء پر وہاں موجود “ شعیہ اقلیتی گروہ “ حزب اللہ “ کی سیاسی و عسکری طاقت کو منظم کرنے کی کام کررہے تھے۔

سو نام نہاد ایرانی اسلامی انقلاب کے بعد جو مادی و سیاسی و عسکری مدد شیعہ اور فلسطینی پناہ گزینوں پر مشتمل گروہ “ افواج الموقوامہ اللبنانیہ “ کو ملی وہ کسی بھی دوسرے لبنانی فریق کے نصیب میں نہ آسکی سو بالاخر انیس سو نوئے میں اس پر مذاکرات ہوئے اور اسکے بعد حزب اللہ دوسال بعد یعنی انیس سو بیانوئے میں اپنی سیاسی ونگ قائم کرتے ہوئے انتخابی عمل میں حصہ لیتے ہوئے ایک سو اٹھائیس سیٹوں پر مشتمل پارلیمان میں کبھی دس تو کبھی بارہ سیٹیں جیتے لیکن ہر اتحادی حکومت میں اپنی دو وزارتوں کو حصول کو یقینی بنایا۔

حزب اللہ ایرانی پراکسی ہے کہ نہیں مندرجہ بالا حقائق کو دیکھ کر اس پر کوئی دو رائے نہیں بنتی، لبنان کے اندر گزرتے وقت کے ساتھ جو سیاسی و عسکری طاقت حزب اللہ نے حاصل کی وہ ایرانی مدد و کمک اور حزب اللہ کی باقاعدہ ایرانی شیعہ رجیم کی زیر سرپرستی کے بغیر ناممکن تھا، دو ہزار نو میں اپنی دوسری شائع کردہ منشور میں حزب اللہ نے اپنی مزاحمی عمل کو تہران کے سرپرستی میں جاری رکھنے کے عہد کو دہرایا اور اسکے علاوہ دو ہزار سولہ میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے اس بات کی تصدیق کی کے “ حزب کی بجٹ، کھانا پینا اور حتیٰ کہ ہتھیار اور راکٹس سب ایران سے آتے ہیں۔

اب اگر اس سب کے باوجود یار باش حسن نصراللہ کو ایرانی ریاستی مفادات کے حوالے سے علاقائی سطح پر موجود ایک بندوق بردار سے بڑھ کر سمجھتے ہیں تو یہ مجبوری کی انتہائی سطح کی نشاندہی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں، اب آتے ہیں ایران، حماس اور یحییٰ سنوار پر

کیا حماس یا سنوار بھی ایرانی بندوق بردار تھا؟

گزشتہ سال سات اکتوبرکو اسرائیل پر حماس کے“ طوفان الاقصیٰ “ کے حملے کے بعد شائع ہونے والی “ یورپین کونسل آن فارن ریلیشن “ میں ایرانی امداد و سفارتی سہارے کے باوجود فلسطینی مزاحمتی گروہوں خاص کر “ حماس اور پی آئی جے ( فلسطینی اسلامک جہاد “ کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ
Iran may not be directly behind the 7 October attacks on Israel, but Tehran has long worked to strengthen groups such as Hamas and Palestinian Islamic Jihad. The broader dynamics within the Middle East have, in turn, limited these groups’ choices, prompting them to turn towards Iran for support
اس رپورٹ کے پہلے جملوں میں ” پان عرب نیشنلزم” کی قوتوں کی منتشر اور تتر بتر ہونے کے باوصف فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی مجبوریوں کو بیان کیا گیا ہے، کہ ان کو ایرانی اشاروں پر ناچنے کی ضرورت کیوں پڑی لیکن دوسرے ہی پیراگراف میں لکھتے ہیں کہ
Since their inception, Iranian-Palestinian relations have functioned as a marriage of convenience based on Iran’s pursuit of security and the Palestinian need for state sponsorship. Today, Iran provides support to a number of Palestinian groups, including Hamas and Palestinian Islamic Jihad (PIJ) most notably. Yet these groups are not puppets and their relationship with Tehran is constantly evolving
یعنی گوکہ وہ ایرانی امداد سے بہرہ آور ہیں لیکن ایران اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی رشتہ ایک طرح سے “ میرج آف کنوینس، یا پھر ، سہولت کی شادی “ والی مثال ہے، اور یہ فلسطینی گروہوں کی ضروریات اور ایرانی ریاستی مفادات ابھی تک اس طرح آپس میں مدغم نہیں ہوئے کہ انہیں، یعنی، ایرانی امداد لینے والی فلسطینی جنگجنو گروہوں کو پراکسی کہنے تک بات پہنچ جائے۔

پراکسی ہونا یا پھر اپنے مفادات کے لیے کسی سے اپنے مقاصد کی بنیاد پر اپنے اور اپنی تحریکی اغراض و مقاصد سمیت سیاسی نظریات کو زک پہنچائے بغیر رشتہ رکھنا ایک اتحادی گٹھ جوڑ کہی جاسکتی ہے لیکن اسے محض ان بنیادوں پر پراکسی نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کسی سے امداد لے رہے ہوں، باہمی مفادات کے تحت کام کرنے اور جنگیں لڑنے کی اپنی ایک تاریخ رہی ہے جہاں ہم کیوبا اور ویت نام کی مثال لے لیں تو یہ ممالک براہ راست سویت یونین سے امداد لے کر اپنے ملک کی اندر امریکی مفادات کے لئے قائم کٹھ پتلی رجیم سے لڑے۔

فلسطین اور ایرانی شیعہ رجیم کے درمیان تعلقات کا آغاز لبنان خانہ جنگی دوران ہوا اور قیاس کیا جاتا ہے کہ انیس سو اناسی کی ایرانی اسلامی انقلاب میں مرکزی کردار ادا کرنے والے بہت سے عسکری رہنماؤں کی بنیادی تربیت بھی لبنان میں موجود پی ایل او کی کیمپس میں انہی کی زیر نگرانی رہی ہے، علاوہ ازیں جب آیت اللہ خمینی نام نہاد اسلامی انقلاب سے پہلے پیرس میں مقیم تھے انکی حفاظت پر معمور بہت سارے لوگ پی ایل او سے براہ راست یا بلواسطہ وابستہ تھے۔

اور اسکے علاوہ جب ایران میں انیس سو اناسی کا اسلامی انقلاب کے بعد ملاؤں نے جب اقتدار سنبھالا تو پی ایل او کے سربراہ یاسرعرفات وہ پہلے غیر ملکی رہنما تھے جنہوں نے ایران کا دروہ کیا۔فلسطینی گروہوں” چاہے وہ بائیں بازو کے پی ایف ایل پی ہو، پی ایل او ہو یا پھر حالیہ فلسطینی عسکری تنظیمیں حماس اور اسلامک جہاد ہوں انکے اور ایران کے مابین امداد اور عسکری رشتے کی بنیاد باہمی مفادات تھے، عرب نیشنلزم کے جذبوں کے ماند پڑنے اور فلسطینی جد و جہد سے ہاتھ کھینچنے کے بعد فلسطینیوں کو اپنی بقاء کی جنگ جاری رکھنے کے لئے علاقائی سطح پر ایک ایسی قوت درکار تھی جو انکی عسکری و سیاسی ضروریات کو پورا کرسکے اور ایران کو پی ایل او کی عسکریت پسندی ترک کرنے، اسرائیل سے مزاکرات کرنے اور امن معاہدات کے بعد ایک ایسی محاذ کی ضرورت تھی جو اسرائیل کو انکے اپنے ہی دروازے تک جنگی سرگرمیوں میں مشغول رکھے یعنی ایران اپنے لیے فلسطینی جنگی میدان کی گرما گرمیوں کو ایک بفر زون کی حیثیت سے دیکھتے اور انہی بنیادوں پر انہیں ہر طرح کی ممکن مدد کرتے تاکہ اسرائیل کو ایرانی سرحدوں سے دور ایک محاذ کے اندر ہی مشغول رکھا جاسکے۔

لبنان کے وادیِ بیقا کے اندر موجود فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی تربیت اور مالی و عسکری امداد کا سلسلہ ایرانی شیعہ رجیم کے ذریعے حزب اللہ کی جانب سے جاری رہی، فلسطینی اسلامک جہاد کے شریک بانی فتحی الصدیقی نے انیس سو ترانوئے میں “ نیوز ڈے “ کو بتایا کہ “ ایران ہمیں ادھر مالی و عسکری امداد دیتا ہے اور ہم پھر اس امداد کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں تک پہنچاتے ہوئے وہاں موجود لوگوں اور انکی اہل عیال کا خیال رکھتے ہیں”

بہرحال حزب اللہ کے برعکس ایران کبھی بھی حماس اور فلسطینی اسلامک جہاد کی سو فیصدی سرپرستی حاصل کرتے ہوئے انہیں اپنے مفاداتی جنگ کا باقاعدہ حصہ نہ بنا سکی، عرب اسپرنگ کے دوران ابھرتے شامی خانہ جنگی کے دوران حماس کے شام کے محاذ پر موجود رہنماؤں نے اپنے تئیں بہت سی کوششیں کیں کہ وہاں پر شیعہ سنی سیاسی و عسکری محاذ آرائی کو روکا جاسکے لیکن جب ایران نے انہیں اپنی سرپرستی کی زعم میں آتے ہوئے یہ بتایا کہ ” شام میں حماس کو باقاعدہ بشار الاسد کی حکومت کا حمایت کرنا ہوگا” تو حماس نے اس ایرانی خواہش کا احترام نہ کرتے ہوئے اس سے یکسر انکار کیا جسکے جواب میں ایران اور حماس کے درمیان کچھ تلخیاں رہیں اور ایران نےحماس کو دی جانے والی اپنی مالی معاونت کو نصف تک گھٹا کر یعنی ایک سو پچاس ملین ڈالرز سالانہ سے پچھتر ملین سالانہ کردیا تھا۔

اور اسی دوران حماس سے کٹوتی کی ہوئی امدادی رقوم میں سے کچھ مالی اعانت فلسطینی اسلامک جہاد کی طرف موڈ دی گئی جو کہ حماس کے برعکس شامی محاذ آرائی میں کسی جانبداری اور تنقید کے بغیر حاموش رہے لیکن اسکے کچھ عرصے بعد یعنی ایران اور اسلامک جہاد کے درمیان یمن اور سعودی عرب کے تنازعے میں حوثیوں کے مسئلے کو لے کر درڑیں پڑنا شروع ہوئیں جہاں ایران کی خواہش تھی کہ اسلامک جہاد ایرانی امداد لینے اور اتحادی ہونے کی قیمت چکاتے ہوئے یمنی حوثیوں کی حمایت کرے اور سعودی عرب کی کردار پر سوال اٹھائے، جس سے اسلامک جہاد نے انکار کردیا۔

گوکہ بعد میں اسلامک جہاد شدید مالی بحران کی زد میں آکر ایرانی بیانیے کا قائل ضرور ہوا اور اس تنظیم کی جانب سے یمن کی حوثیوں کے حق میں بیانات بھی سامنے آئے جوکہ ایرانی مالی اعانت کی ہی وجہ سے ہوا، لیکن حماس کی اسلامی نظریات کے باوجود انہوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو علاقے کے اندر ایک ایرانی اتحادی سے زیادہ پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، اور مبصرین اس بات پر تقریباً متفق ہیں کہ گزشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کی جانب کی جانے والی “ طوفان الاقصیٰ “ آپریشن کے منصبوبہ بندی، ڈھانچے اور انجام دہی کے کسی بھی مرحلے میں ایران کو اعتماد میں نہیں لیا گیا یا اسے پیشگی اطلاع نہیں دی گئی اور اس سے اس بارے کوئی مشاورت یا انٹیلی جنس شئیرنگ نہیں گئی۔

گوکہ یہ ایرانی عسکری و مالی معاونت کی وجہ تھی کہ حماس اتنی دیر تک غزہ کے اندر موجود رہتے ہوئے اپنی سیاسی و عسکری اثر رسوخ اور قابلیت کو اس حد تک لے گئی کہ اسرائیل مفادات پر فلسطینی مزاحمتی تاریخ کا سب سے بڑا اور خونریز حملہ کیا، جسکے بعد اسرائیل نے حماس کے رہنماؤں سمیت غزہ کے اندر ہزاروں لوگوں کو عمر اور نظریات کی تفریق و لحاظ کیے بغیر موت کے گھاٹ اتار دیا، لبنان کے اندر حزب اللہ کے سینئر ترین رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے علاوہ ایرانی مفادات کو خاصی نقصان پہنچایا۔

بہرحال ہم بلوچ اپنی قومی آجوئی تحریک کے باوصف شہداء کی بنیادی تعارف کو مذہب سے یکسر الگ کرکے دیکھتے ہیں ۔بنیاد سے ہی ایسا ہوا ہے اور ایسا ہی ہورہا ہےاور میں پر امید ہوں کہ بلوچ اجتماعی مفادات کی اشتمالیت نقطے کے باوصف ہمیں اس چیز کو اپنے ذہنوں میں ہمیشہ زندہ رکھنا چائیے کہ بلوچ مفادات کی خاطر جان سے جانے والے دلیپ داس، ڈیرہ بگٹی میں پاکستانی فضائی بمبارڈمنٹ میں گئے ہندو بلوچ اور پاکستان کے ہاتھوں عقوبت خانوں ٹارچر سہتے ہوئے جان سے جانے والے مولوی عبدالخالق سب کے سب اپنی مذہبی تعلقات کے جداگانہ حیثیت کے باوجود شہادت کے عظیم مرتبت پر فائز ہیں ناں کوئی کم نہ ہی کوئی زیادہ۔

ویسے ہی ہمارا مسئلہ یحییٰ سنوار اور حسن نصراللہ کے معاملے میں بس اتنی سی ہے، حسن نصراللہ ایرانی مفاداتی جھنڈا بردار جہاز کا وہ کپتان تھا جسے ایران نے جس طرح چاہا اور جہاں بھی چاہا استعمال کیا، وہ حقیقت میں وہی سوچتے، وہی سمجھتے اور وہی کرتے جو ایرانی ملا رجیم اپنی مفادات کی تکمیل کے لئے چاہتے رہے، لبنان کے حسن نصراللہ لبنانی سرزمین کے اسرائیل کے ساتھ شامل کیے جانے سے کہیں زیادہ اس نظریے کے واسطے اسرائیل سے بھڑتے اور جھگڑتے تھے جو نظریہ ایران نے ان تک برآمد کی تھی اور یہی برآمدی نظریاتی جوکھم نے انہیں دنیا کی نظروں میں ایک لبنانی مزاحمت کار سے زیادہ ایرانی مفاداتی کھیل کا بندوق بردار بنا دیا، کیونکہ حسن نصراللہ کے ہاں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سیاسی و عسکری فیصلہ سازی کی مرکزیت نہیں تھی، کیونکہ وہ فیصلہ سازی کی مرکزیت ” پان شیعہ” نظریات رکھنے کی وجہ سے ایرانی اسلامی شیعہ رجیم کو سونپ چکے تھے، اسے اس بات سے کوئی واسطہ نہ تھا کہ انکے کسی فیصلے سے لبنانی، مملکت، لبنانی سماج اور سیاسی مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہونگے، بلکہ وہ ان تمام تر معماملات کو لبنانی ریاست سے کہیں زیادہ ایرانی شیعہ نظریات سے نتھی کرتے دیکھتے، اس سے اسکی تمام تر عسکری و سیاسی سوچ و فکر اور رکھ رکھاؤ پر دور رس اثرات مرتب ہوئے۔لیکن دوسری طرف حماس کے اندر باوجودیکہ ایرانی اتحادی ہونے کا، فیصلہ سازی کی ایک مرکزیتی اساس ضرور موجود تھا جس کا اوپر سلسلہ وار ذکر کیا گیا ہے، اور سنی شیعہ تفریقات کی بنیادی حقیقت بھی اتحادی ہونے کے باوجود عدم اعتمادی فضا کو برقرار رکھنے میں بڑا کردار ادا کرتا رہا اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔

سو بلوچ سیاسی کارکن جسے چاہے شہید یا جسے چاہے پراکسی سمجھے اور کہے لیکن میرا مدعا بس اتنا ہے کہ وہ کسی کی منہ سے کسی کے لیے شہید یا پراکسی اور مفاداتی جھنڈا بردار کے الفاظ سن لے تو کم از کم بلوچ سیاسی کارکن کے پاس اتنی علمی پس منظر ضرور ہوکہ وہ یہ سوچ کر اپنے آپ میں یہ فیصلہ کرسکے کہ کوئی کیونکر ایسا کہہ رہا ہے، حقیقت ہے، علمی یا ذہنی الجھن ہے، کوئی سیاسی مجبوری ہے یا پھر دونوں ہی اسی ایک دکان سے لٹے ہوئے گراہک یعنی “ ساڑو “ ہیں۔

اب یارباشوں کی اس الجھن پر کہ کون شہید ،کون پراکسی اور کیوں ہے تو اس پر بلوچ سنجیدہ سیاسی کارکن کو ضرور فکر کرنا چاہئیے کہ بالاخر انکی مجبوری کیا ہے؟

Exit mobile version