Homeآرٹیکلز" یوم آس روخ " ڈرائیور اعظم کے ماتھے کا کلنک...

” یوم آس روخ ” ڈرائیور اعظم کے ماتھے کا کلنک داد شاہ بلوچ

” یوم آس روخ ”
ڈرائیور اعظم کے ماتھے کا کلنک

داد شاہ بلوچ

28 مئی 1998 کے حوالے سے میرے نزدیک پاکستان کو لعن و طعن کرنے سے پہلے سردارعطااللہ مینگل کے نور نظر اور اس وقت کے صوبائی وزیر اعلی بلوچستان جناب اختر مینگل کو اس مذموم اور گھناؤنی عمل کا مکمل زمہدار ماننا چاہیئے، اور اسکے بعد چاہے اختر مینگل بلوچ قوم کے لیئے آسمان پر کمند ڈٓال کر ستارے بھی توڑ لائے تو بھی اسے اسکی اس بلوچیت اور انسانیت سے گری ہوئی حرکت پر احتساب اور عوامی عدالت کے کٹہرے میں گھسیٹ کر پیش کیا جانا لازم ہے، ہمیں گو کہ اس حقیقت کا ادراک ہے کہ اخترمینگل جیسے مہروں کی مبینہ ” ہاں ” یا ” ناں ” کی کوئی اہمیت نہیں تھی اور ہونا تو وہی تھا کہ ہوکر گزر گیا یعنی اگر اختر مینگل نہ مانتے بھی تو یہ دھماکے پاکستانی فوج کے ایما پر نواز شریف حکومت کسی بھی حال میں سرانجام دے دیتا لیکن اختر مینگل کو انگلی کٹوا کر شہیدوں میں جگہ پانے کی مصداق کم از کم اس طرز کی انسانیت و بلوچ کش جرم میں شریک کار نہیں بن جانا چاہیئے تھا، اسے چاہیئے تھا کہ قوم کے سامنے اپنی بے بسی کا رونا روتے اور کٹھ پتلی صوبائی انتظامی حکومت کی سربراہی سے دست بردار ہوجاتے مگر بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور اختر مینگل جیسے اوندھے قسمت والے نے شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری ثابت کرنے کی خاطر اپنی ہی قوم کو ان جوہری ہتھیاروں کے تابکاری کے اثرات کے نتیجے میں تا ابد مرتے چھوڑ دیا، یہ ایک کلنک کا ٹیکہ ہے جو کہ کسی بھی قسم کے پانی سے نہیں دھویا جاسکتا ہے، بلکہ اسکو دھونے کے کے لیئے اختر مینگل جیسے قوم کے بیوپاریوں کو سزا و جزا کے عمل سے گزرنا ہوگا، تب جاکر ماتھے پر سجی محراب جیسی یہ کلنک کی سیاہی شاید کچھ کم ہوجائے۔

کبھی کبھی یہ سوال زہن میں ابھرتا ہے کہ امریکہ جو کہ دنیا کا سب بڑا عسکری طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا میں پہلی اور آخری مرتبہ باضابطہ طور پر ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے والا پہلا ملک ہے کہ جنہوں نے 1945 میں ہیروشیما اور پھر اسکے تین دن بعد ناگاساکی میں ایٹم بم گرا کر جاپان کو دوسری جنگ عظیم کے آخری دنوں میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا، وہی امریکہ کس طرح دنیا کی جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے سنتری یا حوالدار کا کردار ادا کررہا ہے، ابھی ایران کی مثال لے لیجیئے اور شمالی کوریا کی بات کریں تو امریکہ، بہت سارے دیگر عالمی قوتوں کے ساتھ ساتھ شاید سب سے نمایاں کردار ہے جو کہ ایٹمی ہتھیاروں کی عدم پھیلاؤ کی کوششوں میں پیش پیش ہے، بنگلہ دیش نے بھی ماضی میں سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرکے امریکہ ہی کے بھروسے پر اپنی جوہری پروگرام کو رول بیک کیا تھا، اور بھی ایسے مثال ہیں جہاں امریکہ جوہری پروگرام کے پرامن استعمال کو یقینی بنانے کے لیئے ہر وقت دوسرے ملکوں پر معاشی پابندیاں عائد کرتی چلی آرہی ہے، ایسا کیوں ہے کہ امریکہ جو کہ نہ صرف خود ایک بہت بڑا ایٹمی طاقت ہے اور اسکے پاس متعدد ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں، اور وہ دنیا میں جوہری یتھیار سازی کے حوالے سے اور ایٹمی جنگ کرنے والا پہلا ملک ہے اور دوسرے ملکوں کے خلاف اس حوالے سے سنتری بھی بن رہا ہے، اس کا ایک سیدھا سا جواب یہی ہے کہ امریکی اور دیگر ایٹمی طاقتیں جو کہ بذات خود ایٹمی یتھیار رکھنے کے باوجود دوسرے ملکوں کو اس ایٹمی ہتھیار تک رسائی نہیں دینا چاہتے وہ یہی ہے کہ ان تمام ملکوں کا زمہدار عسکری قوت، یعنی کہ وہ اس بات کا اعادہ کرچکے ہیں کہ ہمارا ایٹمی طاقت نہ صرف پرامن مقاصد اور محض بڑے حملوں یا جارحیت کی روک تھام یعنی وار ڈیٹرنس کے لیئے ہے بلکہ ہم اپنی ملکی معاشی و سیاسی استحکام کے حوالے سے اس بات کا ضمانت فراہم کرتے ہیں کہ ہمارے یہ خطرناک ایٹ٘می ہتھیار کسی تیسری فریق کے ہاتھ نہیں لگ سکتے اور انکی اسٹریٹیجک دفاعی صلاحیت اتنی مضبوط ہے کہ وہ اپنے ان ایٹمی ہتھیاروں پر ہونے والی بھاری بھرکم اخراجات کو تسلسل کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے انہیں مستقل اور سخت نگرانی میں رکھیں گے تاکہ کسی بھی قسم کی بھول چھوک کی وجہ سے یہ ایٹمی وار ہیڈز کسی عظیم سانحے کا سبب نہ بن جائیں، نہ کہ ایران اور پاکستان کی طرح جہاں عملا جہموریت کے نام پر ملائیت کا راج ہے یعنی ڈیموکریسی کے بھیس میں تھیوکریسی کی شکل میں پاکستان اور ایران جیسے ممالک پر یہ اعتبار ہر گز نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے ایٹمی ہتھیار کسی تیسرے ملک خلاف محض مذہبی یا مسلکی عناد کے بنیاد پر استعمال نہیں ہونگے، اسی طرح شمالی کوریا ہے جوکہ اعلانیہ طور پر ایک کمیونسٹ اور فاشسٹ ریاستی بند وبست کے طریقہ کار پر عمل پیرا ہے، لہذا اسی بنیاد پر وہ چھوٹے اور معاشی و سیاسی حوالے سے انتشارو بغض کے شکار ملکوں پر ایٹ٘می طاقت تک رسائی کے حوالے سے متنوع قسم کی پابندیاں عائد کرتی ہیں، اسکے علاوہ ایران پر معاشی پابندیوں اور ماضی میں عراق کے ایٹ٘می ریکٹروں پر اسرائیل کے جانب سے ایرئیل بمبارمنٹ کا تعلق معاشی و سیاسی عدم استحکام سے زیادہ علاقے میں اپنی اور اپنے اتحادیوں کی اسٹریٹیجک مفادات کو تحفظ دینے کا تھاـ

28 مئی 1998 کا دن اس حوالے سے بلوچ قومی بدقسمتی کا ایک اور دن ثابت ہوا، اس لیئے نہیں کہ بلوچستان پر قبضہ کرنے والی دشمن نے ایک ایسی طاقت حاصل کرلی تھی کہ اب بلوچستان کا آذاد ہونا ناممکن سا ہوگیا تھا بلکہ وہ اس لیئے کہ پاکستانی فوج و انتظامیہ نے ملکر ماضی کے قوم پرستی کے دعویدار جناب عطاللہ مینگل کے چشم و چراغ جناب سردار اختر مینگل کی مہربانیوں سے چاغی کے علاقے راسکوہ میں اپنے جوہری تجربات کیئے، دنیا کو اس ایٹمی تجربے سے جہاں ایک بہت بڑا دھچکہ پہنچا کہ اب یہ خطہ مزید سیاسی و عسکری انتشار کا شکار رہیگی، انڈیا پاکستان کے درمیان روایتی حریف ہونے کی وجہ سے مسلسل چپقلشیں کہیں جوہری جنگ کی شکل اختیار نہ کرلیں اور خود پاکستان کے دفاعی میکنزم میں ملائیت کے عمل دخل کی وجہ سے کہیں ان بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جوہری ہتھیارکسی مذہبی شدت پسند گروہ کے ہاتھ نہ لگ جائیں، تو وہیں بلوچ کے مادر وطن کے سینے پر ان جوہری تجربات نے بلوچ قوم پر سیاسی، معاشی و معاشرتی حوالے سے کافی دور رس اثرات مرتب کیئے، آج بھی ان جوہری تابکاری سے متاثر علاقوں میں نومولود بچے ولادت کے بعد یا تو جلدی موت کا شکار ہوجاتے یا پھر غالب امکان یہی ہے کہ وہ زندگی بھر معذورانہ حیات بسر کرتے ہوئے مفلسی کی تصویر بن کر اس دارفانی سے کوچ کرجاتے ہیں، قحط سالیوں کا دور دورا ہے اور حیوانوں کا بھی اس علاقے یا گردو نواح میں جینا دوبھر ہوگیا ہے، بلوچ کے لیئے یہ ایک لمحہ فکریہ تھا کہ ایک قوم پرستی کے دعویدار واجہ اختر مینگل کی موجودگی و منظوری سے یہ ایٹمی تجربات بلوچ سرزمین پر کیئے گئے، مرحوم استاد صبا دشتیاری نے اسی حوالے سے جناب اختر مینگل کو ڈٓرائیور اعظم کا خطاب دیا تھا، کہ وہ نواز شریف کے ساتھ خود گاڑی چلاتے ہوئے چاغی میں ایٹمی تجربات کے پوائنٹ یعنی راسکوہ تک گئے، آج ایک بار پھر وہی اختر مینگل اپنے حواریوں کے ساتھ ووٹ و نوٹ کی بازار گرم رکھنے اور بلوچستان کے پارلیمان میں ہونے والی بلوچ نوجوانوں کی لہو کی بیوپاری میں اپنا کردار ادا کرنے کو سرگرم ہیں، اس وقت جب پاکستانی فوج اور نواز شریف انتظامیہ جوہری تجربات کرنے جارہے تھے تو اسکے ٹھیک 7 دن پہلے یعنی 21 مئی کو سردار اختر مینگل نواز شریف سے ملے اور جوہری تجربات پر اس علاقے کی چناؤ کی مخالفت کے بجائے موصوف نے نواز شریف سے ترقیاتی فنڈ کے نام پر ڈھائی بلین روپے کا تقاضہ کیا تھا کہ مابعد اثرات سے نمٹنے کے لیئے وہ ان علاقوں کے تعمیر و ترقی پر ان پیسوں کو خرچ کریں گے، ان دھماکوں سے خارج ہونے والی تابکاری کے اثرات سے جگر، پھیپڑوں اور خون کے کینسر، جلد کے امراض اور ٹائیفائیڈ جیسے امراض کے ساتھ ساتھ نظام عصبی میں خلل پڑنے جیسے مسائل اس علاقے میں عام ہوتے گئے جو آج تک گردو نواح کے علاقہ مکینوں کے مقدر بنے ہوئے ہیں، ماحولیات پر اسکے اثرات اسکے علاوہ ہیں، ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق اس علاقے میں ہر تیسری موت کینسر کی وجہ سے واقع ہورہی ہے، اور راسکوہ پہاڑی سلسلے کے ارد گرد خاران چاغی اور نوشکی جیسے اضلاع میں کینسر جیسے موذی مرض کی پھیلاؤ انہی ایٹمی تابکاریوں کے وجہ سے ہی ہے، یہ ایک دھیمی رفتار سے اثرپذیر زہر یعنی سلو پوائزن ہے جو کہ آہستہ آہستہ انسان کو موت کی منہ میں دھکیلتا جائے گا اور بندے کو اس کا احساس بھی نہ ہوگا، دیکھنے والے اس کو ایک طبعی موت قرار دیں گے، لیکن اس میں ایک “قتل عمد” ہے اور جس سے علاقے میں مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں، اختر مینگل نے کمال مہارت سے بغیر کسی فوج کشی کے، بغیر جارحیت اور بنا کسی لاؤ لشکر کے ہزارہا بلوچوں کو قتل اور اسی تعداد میں لوگوں کو در بدر کروایا اور یہ خانہ بدوشی و دربدری کی عذاب اور ایٹمی تابکاریوں سے لقمہ اجل بن جانے اور متعدد لاعلاج و موذی امراض میں مبتلا ہونے کی یہ سفر آج بھی اسی آب و تاب سے جاری ہے۔

یہ دھماکے پنجاب میں نہیں ہوئے بلکہ ان کے لیئے بلوچستان کے پہاڑوں کو چنا گیا، اور اس وقت کسی فوجی ڈکٹیٹر کی کٹ پتلی کی بلوچستان پر حکمرانی نہیں تھی بلکہ قوم پرستی کے دم بھرنے والی جناب فرزند گراں مایہ سردار اختر مینگل ہی دمام اقتدار پر بیٹھے ہوئے تھے، یہ عمل بذات خود اس بات کی غماز تھی یہ ایک مفتوحہ علاقہ ہے اور فاتح و حاکم جو چاہے اور جیسے چاہے یہاں وہ فعل سرانجام دے اور اس میں شامل تمام مہرے جو بظاہر بلوچ و بلوچ قوم پرستی کے لبادے اوڑھے ہوئے تھے انکی کوئی اہمیت و وقعت نہیں، سب اس میں برابر شریک کار تھے، میرے خیال میں بلوچ آزادی پسند لیڈر شپ کو کم از کم سال میں ایک مرتبہ ہی سہی 28 مئی کے دن اختر مینگل کی اس گھناؤنی کردار کی یاددہانی قوم کو کرانا ضروری ہے، پاکستان جو کہ حقیقت میں ایک قبضہ گیر ہے، اس سے گلہ کرنا بے سود ہے دنیا کے سامنے پاکستان کی جوہری ہتھیاروں کے حوالے حقائق دنیا تک ضرور پہنچانے چائیے لیکن اسکے ساتھ ساتھ قوم کے سامنے اختر مینگل جیسے پیداگیروں کی نام نہاد قوم پرستی کا پردہ چاک کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے، یہ علاقہ جہاں یہ دھماکے کیئے گئے کوئی بے آب و گیاہ پہاڑی علاقہ نہیں تھا بلکہ ایک گاؤں کے نکڑ پہ واقع راسکوہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع کوہ کامران پر یہ دھماکے ہوئے جو کہ چاغی ضلع کے علاقے چھہتر میں ہے، اس لحاظ سے یہ ڈھکوسلہ بھی بلوچ قومی مفادات کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچے سے کم نہ تھا کہ یہ ایک غیر آباد اور پہاڑی علاقہ ہے، جہاں اوائل میں ان جوہری اثرات کی وجہ سے 4 ہزار کے لگ بھگ علاقہ مکینوں نے اپنے گھروں اور زمینوں کو خیرباد کہہ کر کہیں اور جاکر آباد ہوگئے، جو اس ہجرت کی کماحقہ حیثیت نہیں رکھتے تھے وہ وہیں پر انہی انسان کش تابکاریوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیئے گئے، علاقے میں موجود ایک بلڈ ٹیسٹ سینٹر کے کارکن کا کہنا تھا کہ یہاں اب تھیلیسمیا سے متاثر کافی مریض آرہے اور بیشتر ایسے لوگ ہیں کہ جن کے ماں باپ میں سے یعنی وراثتی بنیادوں پرکسی میں تھیلسمیا کا کوئی تاریخی پس منظر موجود نہیں یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ یہ بیماریاں اور اس نوع کی دیگر در آنے والی امراض محض انہی جوہری تابکاریوں کی اثرات کے مرہون منت ہیں۔

شاید سب بلوچ اختر مینگل کی طرح ڈرائیور اعظم کا نشان ماتھے پر سجانا نہیں چاہتے تھے اسی لیئے بیشتر بلوچ حلقوں کی طرف سے اس جوہری تجربے کے لیئے بلوچ سرزمین کا انتخاب قطعہ نا قابل قبول تھا انکے بس میں جو گزرا انہوں نے کیا، 24 مئی 1998 کو ایک جہاز کو تربت ائیرپورٹ سے اڑان بھرنے کے فورا بعد اغوا کیا گیا، اسکے تانے بانے بہت سارے معاملات سے جوڑے گئے، مگر ایک مفروضہ یہی تھا اسے بی ایس او یا بلوچ قوم پرستی کے رجحانات رکھنے والے کچھ نوجوانوں نے اغوا کیا ہے، گو کہ وہ اپنے اس مشن میں نا کامران رہے مگر اسی دن سی این این نے رپورٹ دیا تھا کہ
The hijackers were identified as students who oppose testing of nuclear devices.
May 24, 1998 CNN
ان تینوں کو 2 سال پہلے پھانسی دی گئی مگر اس حوالے سے بلوچ قوم پرست حلقے مکمل طور پر خاموش رہے اور عالمی دنیا کے سامنے اپنی کیس کی نمائندگی کرنے میں بجا طور پر ناکام رہے، ہونا تو یہی چاہیئے تھا کہ وہ ان تمام میڈٓیا رپورٹس کی بنیاد پر اس احتجاجی اقدام کی تشہیر و ترویج کرکے پاکستانی نیوکلیئر ٹیسٹ کے حوالے بلوچ قوم پرست حلقوں کی اس وقت کی مخالفانہ روش کو دنیا کے سامنے رکھتے کہ کس طرح بلوچ قوم نے ان جوہری ہتھیاروں کی تجربے کو روکنے کے لیئے ریاست پاکستان کو پریشر دینے کی کوشش کی تھی جو آج ایک دیوہیکل خطرے کی صورت دنیا کے امن کے سر پر منڈلا رہی ہے، چاہے وہ کتنی ہی حقیر کوشش کیوں نہ ہو یا ناکامیاب کیوں نہ ہوا ہو، مگر اس حوالے سے ایک مکمل پروپیگنڈہ مہم کو اسی وقت سے آج تک تسلسل و تکرار کے ساتھ دہراتے رہنا چاہیے تھا، گو کہ فی زمانہ بلوچ حقیقی لیڈرشپ اپنی منتشر قومی قوت کے ساتھ اس امر کے حوالے سے اپنی کوششوں میں مصروف با عمل ہے کہ کسی طرح سے پاکستانی جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے دنیا بھر میں ایک آگاہی مہم چلا کر دنیا جو کہ پاکستان جیسی غیرزمہدار و غیر فطری ریاست کی خیرہ سری سے آگاہ ہے، کہ کس طرح انہوں نے دنیا کے امن کو تہہ و بالا کرنے اور عالمی امن کو داؤ پر لگا کر شدید ترین خطرات میں ڈالتے ہوئے دنیا کے دیگر ممالک کو جوہری آلات فراہم کیئے، لیکن اسکے باوجود بلوچ لیڈر شپ کو دنیا کہ سامنے پاکستانی قبضہ گیریت و جوہری تجربات کے حوالے سے اپنی موقف بھر پور انداز سے رکھنے میں مشکلات و بسا اوقات ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اسکی شاید سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ جو بلوچ حقیقی قوتیں عالمی سطح پر اپنا موقف رکھنا چاہتے ہیں انکو اندرون خانہ خاصی کھینچا تانی کہ وجہ سے ہی مشکلات در پیش ہوں کیونکہ یہاں بہت ساری پارٹیوں اور ان پارٹیوں کے کرتا دھرتاؤں کے لیئے بلوچ مسئلے کو اجاگر کرنے کی اہمیت اپنی ذاتی و گروہی اور پارٹی کی نام کے تشہیر سے کہیں کم اہمیت رکھتا ہے، ان کے لئے بلوچ اجتماعی مرگ و زیست کا مسئلہ انہی کے پارٹی یا گروہ کے پالیسیوں کی بہرصورت کامیابی میں مضمر ہے، چاہے وہ پالیسیاں حقیقت سے کسی بھی شکل میں میل نہ کھاتے ہوں، اسی کھینچا تانی کی وجہ سے بلوچ حقیقی لیڈر شپ کو آج تک باہری دنیا میں سفارتکاری کے حوالے سے خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی، ماضی میں خفیہ طور پر یہ عناصر اس طرح کی ریشہ دوانیوں میں مصروف رہے ہیں اور حالیہ عرصے میں کھلم کھلا وہ بلوچ تحریک کے اندر اپنی قوت کو منوانے کے خاطر بلوچ قومی تحریک کی پوری بیانیے کو تختہ مشق بنا کر اس کی قیمت پر اپنی گروہی و مفاداتی ایجنڈے کو آگے لے کر جانے میں بضد ہیں، لیکن ان جنگی و انقلابی پیداگیروں کے علاوہ بھی بلوچ حقیقی قوتوں کو بلوچ مسئلے کے حوالے سے اپنی مدد آپ کے تحت یا خود شناسائی کے زمہ داریوں کے حوالے اپنے زور بازو پر اکتفا کرکے نحیف و لاغر سہی یک یکسو سفارتکاری کا آغاز کرنا چاہئے۔

بلوچ قوم کی اس رواں تحریک میں اب کوئی شک نہیں رہا ہے کہ فریق بہت سارے ہیں، ہر کوئی اس تحریک میں اپنی بساط و اوقات کے مطابق محو سفر ہے، ظاہر سی بات ہے جو پیداگیر ہیں انکے لئے اپنا نام اور ذات کے تشہیر ہی سب کچھ ہے، اس ماحول میں موجود حقیقی قوتوں کو ان پیداگیروں کی ریشہ دوانیوں سے زیادہ اپنی کام پر تندہی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے، کچھ ایسے میدان ہیں جہاں یہ فریق کھینچا تانی کے باوجود بھی حقیقی بلوچ لیڈرشپ کی کام کو نہیں روک سکتے، مثلا جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے اس وقت کے انتظامی سربراہ بے نظیر بھٹو کی فوج کے ایما پر چین کے دورے سے واپس آتے ہوئے شمالی کوریا میں مختصر دورانیے کی قیام اور اس میں جوہری آلات و سینٹری فیوج کے بدلے کورین میزائل ٹیکنالوجی پر ڈیل اور پھر ڈاکٹر قدیر خان کی اعترافی بیان اور اسکے بعد اس امر کا اعتراف کہ وہ شمالی کوریا ایران اور لیبیا کے معمر قذافی کے لیئے جوہری آلات کے ترسیل میں ملوث رہے ہیں تو اس ضمن میں بلوچ حقیقی لیڈر شپ جو کہ بلوچ قومی مفادات کی ممکمنہ و آخری نگہبان ہے اس کے لیئے سفارتکاری کے ذریعے ان تمام معاملات کے حوالے سے دنیا کے ساتھ ایک یکطرفہ مراسلے کا سلسلہ شروع کرنا چاہیئے، چاہے وہاں سے جوابی مراسلہ ملے یا نہ ملے بلوچ لیڈرشپ کو باہری دنیا میں موجود اپنے ساتھیوں اور ہمدردوں کے ذریعے دنیا کے مختلف ملکوں کے شہروں میں ان جوہری تجربات کے خلاف احتجاج کے ساتھ ساتھ ان شہروں میں موجود دوسرے ملکوں کے سفارتخانوں اور اقوام متحدہ کے ساتھ مراسلوں کا ایک سلسلہ شروع کرنا چاہئے جو کہ سال بھر میں آنے والے مختلف مواقعوں کی نسبت سے مراسلوں کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ لازمی ہونا چاہئے گو کہ دنیا پاکستان کے جوہری ہتھیاروں اور انکو پھیلاؤ اور تحفظ کے حوالے سے یقیناً بخوبی آگاہ ہے مگر خود بلوچ قوم کا کیا موقف یہ چیز دنیا کے سامنے ضرور لایا جانا چاہئیے کیونکہ 2 ہی ایسے عنصر ہیں پاکستان اور بلوچ قومی تضاد میں جو کہ بلوچ کے موقف کو دنیا کے سامنے لانے میں مددگار بھی ہوسکتے ہیں اور دنیا ان دونوں باتوں کی حقیقت سے انکار بھی نہیں کرسکتی،
ایک مجموعی حوالے پاکستان کا بلوچ سرزمین پر قبضہ اور اس میں برطانوی حکومت سمیت مختلف طاقتوں کا آشیرباد کا شامل ہونا اور
دوسرا بلوچ سرزمین پر جسے بلوچ قوم روز اول سے ایک مقبوضہ زمین مانتی چلی آرہی ہے اس پر جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کرنا اور آگے چل کر یہی جوہری ہتھیار دنیا کی امن کے لیئے سنگین خطرات بن کر آج تک منڈلا رہے ہیں، ان دونوں باتوں کا خود دنیا اور بلوچ قوم سے بلا واسطہ تعلق ہے، تو بجائے کسی اور کے کہنے کے یا الزام دھرنے کے یا پھر شکایت کرنے کے اگر بلوچ اس ضمن اپنی زمہ داریوں کو پہچان کر ایک مکمل چھان بین اور ناقابل تردید گوشواروں اور اعدادو شمار کے ساتھ اپنی موقف کو لے کر سامنے آئے تو دنیا اور دنیا میں موجود اداروں کے لیئے اس بات کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔

Exit mobile version