تحریر ـــــ ســــلام ســنجر
ھمگام آرٹیکلز
شروعات سے لیکر آج 2024 تک جب تاریخ آزادی اس موڑ پر پہنچ چکی ہے کہ ہمیں دنیا والوں نے ایک حد پہچان لیا کہ بلوچ قوم حالت جنگ میں اور وہ جنگ آزادی لڑ رہے ہیں لیکن ہم نے بحیثیت بلوچ خود کو آج تک نہیں پہچانا ہے کہ ہماری تاریخ کیا ہے؟ ہماری، کلچر، جغرافیہ، زمین ، شناخت، زبان و ادب ، ہم کون ہیں ؟ ہماری کل اور آج کیا پہچان ہے ؟ یہ اب تک ہم نے نہیں جانا ہے ۔
بی ایس او میں شمولیت کرنے کے بعد ہمیں بحیثیت کارکن کارل مارکس ، اوشو، بھگت سنگھ، ہوچی منہ، گاندھی، اور دنیا کے دیگر انقلابی شخصیات کے بارے پڑھایا گیا اور دنیا کے تمام تحریکوں سے شناسائی کرائی گئی، ہمیں یہ پڑھایا گیا کہ کس طرح بھگت سنگھ نے پھانسی کا پھندا گلا میں ڈال کر امر ہوگئے، لیکن ہمیں نہیں پڑھایا گیا بھگت سنگھ کی جگہ ہمارے پاس حمید بھی ہے جس نے بخوشی پھانسی کا پھندا گلا میں ڈال کر امر ہوگئے ۔
جب بحیثیت ایک سیاسی کارکن ہم نے سوال کیا کہ ھمل جیھند کون تھا اور اس نے کیوں پرتگیزوں کے خلاف جنگ کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ ھمل ایک بحری قزاق تھا اس نے جنگ نہیں کیا بلکہ لوٹ مار کی ہے ۔
جب نے چاکر و گوھرام کے بارے میں سوال کیا تو ہمیں جواب دیا گیا وہ دونوں تو برات کش تھے انہوں آپسی جنگوں میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے رہے لیکن ہم یہ نہیں بتایا گیا کہ آخر ان لوگوں نے آپس میں کیوں جنگ کیا ہے؟ وہ کون سے وجوہات تھے کہ دو بڑے سردار آپس میں لڑ پڑے جواب ندارد، جب نے سوال کیا کہ نوری نصیر خان کون تھا تو ہمیں بتایا گیا کہ نصیر خان نے مکران میں آکر زگریوں کا قتل عام کیا اس لیئے کیا کہ وہ مسلمان نہیں تھے بلکہ کافر تھے جب ہم نے دوبارہ سوال کیا کہ اگر زگری کافر تو ان کو نصیر خان قتل کیا تو پھر تخت نصیری( قلات ) کے نیچے ہزاروں ہندو رہتے تھے اور اب بھی وہ رہ رہے ہیں ان کو نوری نے کافر قرار دے کر کیوں قتل نہیں کیا ؟ اس کا جواب نہیں ملا ۔
جب ہم نے سوال کیا کہ داد شاہ کون تھا تو ہمیں جواب دیا گیا کہ داد شاہ نے اپنے مہمان کو قتل کیا ہے کیوں قتل کیا ہے ؟ اس کا جواب آج تک ہمیں نہیں دیا گیا ، جب ہم نے پوچھا کہ پاکستان کے خلاف اتنی جنگیں کیوں ناکام رہیں جو کہ گزشتہ ادوار میں لڑی گئی تو جواب بھی نہیں ملا۔
ہمیں دنیا کے بارے میں پڑھایا گیا لیکن آج تک ہمیں بلوچ ، بلوچی اور بلوچستان کے بارے بھول کر نہ پڑھایا گیا اور نہ ہی کہا گیا ، بس اتنا کہا گیا کہ بلوچ حالت جنگ میں ہے بلوچستان غیر اقوام کے قبضے میں ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن بلوچستان کیونکر قبضے میں چلا گیا تو اس جواب آج بھی نہیں ملا ۔
فکر کی بات یہ ہے کہ ہم آج تک اپنے بارے میں نہیں جانتے ہیں آج میں کہوں کہ ہوچی منہ کون ہے تو ہر کوئی بتانے کو تیار ہے لیکن سوال کروں کہ یوسف عزیز مگسی کون ہے کوئی نہیں جانتا کیونکہ مگسی کے بجائے ہمیں گاندھی اور ہوچی منہ پڑھایا گیا ہے ، اور آج بھی ہماری نئی نسل اپنے بارے میں نہیں جان سو میں سے 90 فیصد نہیں جانتا کہ ہماری قومی وقار، تاریخ، کلچر، زبان و ادب اور جغرافیہ کیا ہے؟ اس نسل کو ڈاکٹر مبارک علی کی کافی پیسٹ کتابیں پڑھائی گئیں جو کہ دوسروں کی کتابوں کو کاپی کرکے اپنی کتابیں تیار کرتا تھا ،ماؤ کی پندرہ سو صفحات والا کتاب پڑھایا گیا ہے لیکن انہیں بلوچستان کے بارے میں نہیں پڑھایا گیا ہے ۔
اہم نقطہ یہ ہے کہ نئی نسل کو کیا کرنا چاہیے؟
آزادی کی خواہاں غلام قوم اپنی تاریخ، ثقافت، زبان، جغرافیہ اور تاریخی ہیروز کا مطالعہ کرنے سے بہت فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ یہ عناصر قومی شناخت کی بنیاد بناتے ہیں اور آزادی کی راہ پر گامزن اور رہنمائی کرسکتے ہیں۔ آزادی کی جدوجہد میں ان پہلوؤں کو استعمال کرنے کا تفصیلی نقطہ نظر یہ ہے ۔
تاریخ
تاریخی جبر کو سمجھنا چاہیے کہ استعمار یا قبضے کی تاریخ کا مطالعہ کریں تاکہ ظالموں کی جانب سے کنٹرول کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیے جانے والے طریقوں کو سمجھ سکیں۔ اس میں معاشی استحصال، ثقافتی جبر اور سیاسی تسلط شامل ہے۔ بلوچ تاریخ اتنی قدیم ہے کہ بلوچ قوم کے پاس مہرگڑھ جیسی دیو قامت تہذیب ہے ماہر آثار قدیمہ کہتے ہیں کہ مہرگڑھ دنیا کہ پہلی تہذیب ہے جہاں انسانوں نے پہلی بار غاروں سے نکل کر شہروں کو آباد کرنا سیکھا ، یہ مہرگڑھ ہماری شناخت ہے اس کے بارے میں بلوچ نئی نسل کو جانکاری حاصل کرنا چاہیے اس کے علاوہ نانی مندر، مکران کی قدیم آثار قدیمہ، شہر سوختہ(ستکگیں شہر ) چابہار کی دو ہزار پانچ سو سالہ شکر اور چاول کی فیکٹری جو کہ قدیم بلوچوں نے بنائے ہیں ان کی جانکاری، کوہ سلیمان سے لیکر گمبران(بندرعباس ) کی مکمل تاریخ نہ صرف ہمیں جاننا چاہیے بلکہ اس کو موجودہ اور نسل کو منتقل کرنا چاہیے کیونکہ جب ہم اپنی تاریخ سے واقفیت رکھتے ہیں تو اس سے ایک قومی فخر جنم لے گا اور یہی فخر ہمیں متحد کرکے جانب منزل تک پہنچا دے گا ۔
اس کے علاوہ ماضی سے سیکھنا بھی ضروری ہے، ماضی کی بغاوتوں، مزاحمتی تحریکوں اور ان کی کامیابیوں یا ناکامیوں کی وجوہات کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ ماضی کی جنگیں جو کہ وطن کے لئے تھیں کیونکر ناکام ہوئیں ۔ کیوں کہ اس سے موثر حکمت عملی بنانے میں مدد ملتی ہے۔
مصائب اور مزاحمت کی دستاویزات تیار کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ جبر اور مزاحمت کی کہانیوں کو محفوظ کرنے سے نئی راہیں پیدا ہوتی ہیں تاکہ ایک اجتماعی یادداشت کی تعمیر ہو جو آزادی کی خواہش کو ہوا دیتی ہے۔
ثقافت
ثقافتی احیاء کرنا چاہیے، مقامی ثقافتی طریقوں، روایات اور قابضین کی طرف سے دبائے گئے اقدار کو فروغ دینا ہماری قومی ذمہ داری ہے ثقافتی فخر قومی تشخص اور اتحاد کو مضبوط کرتا ہے۔ بلوچ ثقافت اتنی طاقتور ہے کہ گزشتہ ہزاروں سالوں سے بلوچ ثقافت آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ نہ صرف قائم ہے بلکہ ان کی جڑیں غلاموں سے اس قدر پیوست ہیں ان کو کاٹنا سامراج کی بس کی بات نہیں ہے ۔ بلوچ ثقافت جو مراحل ہیں جو پہلو ہیں ان کو نئی نسل تک منتقل کرنا ضروری ہے ہماری ثقافت کی تمام شاخوں پر نہ صرف کام کرنا چاہیے بلکہ ہر پہلو کے بارے تفصیلات فراہم کرنا قومی فریضہ بنتا ہے ۔
آرٹ بطور مزاحمت
مزاحمت کے اظہار اور حوصلے کو برقرار رکھنے کے لیے ادب، موسیقی، رقص، اور بصری فنون کا استعمال کرنا ایک غلام قوم میں احساس بیداری پیدا کرتا ہے ۔ ثقافتی اظہار بین الاقوامی حمایت بھی حاصل کر سکتا ہے۔ دنیا جس کونے میں آپ کو موقعہ ملے اپنی آرٹ کو پیش کریں ، آرٹ ہماری ثقافت کی اولین دروازہ ہے ۔
زبان
زبان کا تحفظ لازمی امر ہے، مادری زبان کو زندہ کرنے کے لیئے اس پر کام کرنا ہر بلوچ پر فرض ہے بھلے ہی وہ وطن سے دور ہو لیکن اپنی مادری زبان کو ہر جگہ زندہ رکھے کیونکہ ہماری شناخت کی پہلی سیڑھی زبان ہے اور اسے فروغ دینا اتنا ضروری جتنا آزادی کی تحریک میں جنگ کرنا ،جسے اکثر قابضین کے ذریعے دبانے کا نشانہ بنایا جاتا ہے اسے لیٹریری صورت میں آگے لانے کی ضرورت ہے ۔ زبان ثقافت اور شناخت کا ایک اہم کیریئر ہے۔
تعلیمی اصلاحات
ایسے تعلیمی پروگراموں کو لاگو کریں جو نوجوان نسل کو مادری زبان، تاریخ اور ثقافت سکھاتے ہیں، اپنے تعلق اور فخر کے احساس کو فروغ دیتے ہیں۔ دشمن کے قبضے میں رہتے ہوئے دشمن نے ہمیں ہر طرح کی تعلیم سے محروم کر رکھا وہ ہمیں وہی پڑھاتا ہے جو وہ چاہتا ہے تعلیمی اصلاحات لانے کے لیئے جدید دنیا کے تعلیمی نظام کا گہرائی سے مطالعہ کرکے اپنے آپ میں منتقل کرنے سے شعور و بصیرت کی نئے روشن دروازے کھل جاتے ہیں ۔
جغرافیہ
بلوچستان کا جغرافیہ کیا ہے اس کی لمبائی کتنی ہے کہاں کہاں تک بلوچستان کی سرحدیں یہ باقاعدہ کتابی شکل میں سامنا لانا ضروری تاکہ اپنی قوم اور دنیا کو بتا سکیں بلوچستان کس طر قدر پھیلا ہوا ہے ،اسٹرٹیجک علم ہونا چاہیے، گوریلا جنگ یا مزاحمت کی دوسری شکلوں میں اسٹریٹجک فوائد کے لیے مقامی علاقے کے علم کو استعمال کرنا ضروری ۔ تاکہ مقامی لوگوں کا اعتماد حاصل ہوسکے۔
وسائل کا استعمال
قابضین پر انحصار کو کم کرتے ہوئے، تحریک آزادی کی حمایت کے لیے مقامی وسائل کی شناخت اور ان کا مؤثر طریقے سے استعمال کرنا ایک الگ جدوجہد ہے اس سے یہی فائدہ ہوگا کہ زیادہ وسائل سے مؤثر کام ہوگا اور جدوجہد تیز ہوگی ۔ وسائل کا استعمال اور اس کی پیداوار اتنی اہم ہے جتنا کہ تحریک آزادی، کیونکہ بغیر وسائل کے ایک بھی کام آگے نہیں جا سکتا ہے اسی لئے جتنا ہوسکے وسائل پیدا کیا جائے ۔
تاریخی ہیرو
رول ماڈل بنائیں، ظلم کے خلاف لڑنے والے تاریخی ہیروز کی زندگیوں اور کامیابیوں کو منانا اور ان کی تشہیر کرنا ایک الگ ذمہ داری ۔ وہ رول ماڈل کے طور پر کام کر سکتے ہیں اور نئی نسلوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔ ھمل جیھند کون تھا اس پر مکمل تفصیلات نئی نسل کو پہنچائیں، سردار دوست کے بارے میں معلومات حاصل کریں ، یعقوب لیث کون تھا ، امیر حمزہ کون تھا ،خان محراب خان سمیت بالاچ و بیبگر کی مکمل حالات زندگی پر بحث کریں یہی ہمارے تاریخی ہیروز ہیں ، بھلے دنیا کے لیئے ہٹلر ایک ظالم تھا لیکن جرمن اسے آج بھی سجدہ کرتے ہیں اور ان کی برسی عقیدت سے مناتے ہیں ۔
علامتی قیادت،
ماضی کے رہنماؤں کی علامتوں اور پیغامات کا استعمال ایک مشترکہ مقصد کے ارد گرد آبادی کو متحد کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے کرنا چاہیے، ماضی کے رہنماؤں نے ہمارے لیئے کیا چھوڑا ہے ان کے بارے کتابیں لکھنا ضروری ہے ، اور موجودہ دور میں ہر بلوچ رہنما پر فرض ہے کہ وہ اپنی سوانح عمری لکھیں تاکہ ان کی جدوجہد کی داستانیں نئی نسل تک منتقل ہوتی رہیں اور وہ اپنے لیئے راہیں ہموار کرکے منزل تک پہنچنے میں ان کو آسانی ہو۔
موجودہ مسائل کو حل کرنا
معاشی خود انحصاری کو استعمال میں لانا ،ایسی معاشی حکمت عملی تیار کریں جو قابض طاقت پر انحصار کو کم کریں، جیسے کہ مقامی کاروبار اور زراعت کو سپورٹ کریں ۔ اپنے سیاسی و معاشی مسائل کو ہمیں آج ہی حل کرنا چاہئے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیئے دشواریاں کم ہوسکیں ، آج ہم جو کریں گے ان کا فائدہ اور نقصان نئی نسل کو ہوگا کیونکہ اگر ہمیں تمام مسائل کا حل آج تلاش کریں گے تو نئی نسل کو تکالیف اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی ، کل کے تمام مسائل آج ہی حل کرنے ہونگے ۔
معاشرتی ہم آہنگی
معاشرتی تانے بانے کو مضبوط کرنے اور اندرونی تنازعات کو کم کرنے کے لیے غربت، عدم مساوات اور تعلیم جیسے سماجی مسائل کو حل کرنا ہماری ایک الگ ذمہداری ہے جن کا قبضہ گیروں کے ذریعے استحصال کیا جا سکتا ہے۔ معاشرتی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے بلوچ قومی اجتماعی نفسیات کو جاننا ضروری ہے ، معاشرتی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیئے بلوچی کلاسیکل داستان، اقوال زریں ، گیدی دستان، کلاسیکل شاعری اور قدیم ادب کو نئے طریقے سے مطالعہ کرکے انہیں نئے انداز میں پیش کرنا چاہیے۔
سیاسی تنظیم
سیاسی و مزاحمتی سرگرمیوں کو مربوط کرنے، بین الاقوامی حمایت کی وکالت کرنے، اور آزادی کے بعد حکمرانی کے لیے تیاری کے لیے زیر زمین اور سرفیس سیاسی تنظیمیں تشکیل دینا یا موجودہ تنظیموں کے اندر نئے خیالات اور نئی حکمت عملی پیدا کرنا ضروری ہے ۔ تاکہ مستقبل کی تیاریاں آج ہی ہو سکے ۔
بین الاقوامی تعاون
-عالمی بیداری کے لیے جدوجہد کرنا ، آزادی کے مقصد کے لیے بین الاقوامی ہمدردی اور حمایت حاصل کرنے کے لیے تاریخی اور ثقافتی بیانیے کا استعمال کرنا لازمی ہے بین الاقوامی تعاون حاصل کرنے کے لیے اپنے جدوجہد آزادی کو اس قدر سامنے لانا درست ہے کہ دنیا کو باور ہوسکے کہ آزاد بلوچستان خطے میں امن کا پیغام لائے گا ۔
اتحاد
اتحاد جو کہ ایک اہم ستون ہے دیگر اقوام اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ اتحاد تلاش کریں جو آزادی اور غیر آباد کاری کی حمایت کرتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ اپنی تاریخ، ثقافت، زبان اور جغرافیہ کے ساتھ گہرائی سے منسلک ہو کر اور ان کو زندہ کر کے، اور تاریخی ہیروز سے سیکھ کر، ایک غلام قوم ایک مضبوط اور متحد شناخت بنا سکتی ہے۔ یہ شناخت آبادی کو متحرک کرنے اور آزادی کے لیے طویل جدوجہد کو برقرار رکھنے کے لیے بہت اہم ہے، جو بالآخر قومی شناخت اور آزادی کا باعث بنتی ہے۔