واشنگٹن (ہمگام نیوز ویب ڈیسک ) تازہ ترین صورتحال کے مطابق مشرق وسطی کے خطے میں میں عالمی طاقتوں کے برخلاف ایرانی ملا رجیم کی سیاست کو لگام دینے کیلئے اس برس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سب سے پہلے امریکہ کی ایرانی جوہری معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے مذکورہ پابندیوں کے دوبارہ عائد کیے جانے کا فیصلہ کیا تھا۔جبکہ آج 6 اگست بروز پیر ایران پر جو امریکی پابندیاں نافذ ہونے جا رہی ہیں ان میں ڈالر خریدنے یا اپنے قبضے میں رکھنے پر پابندی، سونے اور دیگر قیمتی معدنیات کی تجارت پر پابندی، المونیم، گریفائٹ اور کوئلے جیسی معدنیات کی تجارت پر پابندی، ایرانی قرضوں کے ذرائع میں سرمایہ کاری پر پابندی اور ایرانی آٹوموبائل سیکٹر پر پابندی شامل ہے۔امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے مطابق وہائٹ ہاؤس پیر کے روز ایک بیان میں ایران پر پابندیوں کی تفصیلات جاری کرے گا۔آج پیر کے روز سے ایران پر امریکی پابندیوں کے پہلے مرحلے کا اطلاق ہوا ہے۔ پابندیوں کی دوسرے مرحلے کا اطلاق نومبر میں ہو گا۔یاد رہے مشرق وسطی میں عراقی ڈکٹیٹر صدر صدام حسین کی ناکام خارجہ و داخلہ سیاست سے جنم لینے والی بے چینی شروع ہوئی تھی جس کی وجہ سے امریکہ نے سب سے پہلے اس پر اسی طرح سے پابندیوں کا اطلاق کیا تھا۔ جس میں عراقی معیشت کا برا حال ہوا تھا۔اس کے بعد اس پر ملٹری پاور استعمال کیا گیا،بلآخر ایک ڈکٹیٹر کی غلطی کی سزا پوری عراقی قوم نے بھگت لی ،جس کا سلسلہ اج تک جاری ہے۔اب کی حالات کو دیکھ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی سیاست اسی راہ پر گامزن ہے۔اب مستقبل قریب میں سب سے پہلے ایرانی معاشی حوالے سے زوال کی جانب گامزن ہوگا۔اور ان معاشی پابندیوں کی وجہ سے ایران معاشرہ پہلے سے ہی انارکی کی شکار ہیں۔اس دوران اگر ایرانی عوام ملا رجیم کے خلاف اتھ کھڑے ہوئے تو اس کی انھیں کم قیمت ادا کرنا ہوگا وگرنہ دوسری صورت میں موجودہ ایران دوسرا شام یا عراق بن سکتا ہے ۔ واضح رہے کہ 2015ء میں امریکی صدر باراک اوباما اور ایرانی حکومت میں جوہری معاہدہ ہوا تھا اور اسی دن ایران پر سے معاشی پابندیاں ختم کردی گئی تھیں تاہم نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو رواں برس مئی میں غیر موثر کردیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ایک غیر فعال معاہدہ ہے جس میں ایران کو نوازا گیا۔ایران پر پابندیوں کا اطلاق کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایرانی حکومت پر معاشی دباؤ برقرار رکھیں گے جس کا مقصد ایرانی حکومت سے ایک نیا اور موثر جوہری معاہدہ کرنا ہے جس کے ذریعے ایران کی تخریبی کارروائیاں ختم کی جاسکیں جن میں اس کا بیلسٹک میزائل پروگرام اور دہشت گردوں کی سہولت کاری شامل ہیں۔