شال:(ہمگام نیوز) بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور اجتماعی سزا کا سلسلہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ حالیہ عرصے میں جھڑپوں میں مارے جانے والے افراد کی لاشوں کی عدم حوالگی اور انہیں بغیر شناخت کے دفنانے کا رجحان، انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں میں ایک نیا اور تشویشناک اضافہ ہے۔
ان خیالات کا اظہار ماما قدیر بلوچ نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کے احتجاجی کیمپ میں مختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ بدھ کے روز کیمپ کو 5,848 دن مکمل ہو گئے، جو خطے میں جبری گمشدگیوں کے خلاف طویل ترین پُرامن احتجاج شمار ہوتا ہے۔
ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں جاری اس احتجاجی سلسلے میں لاپتہ افراد کے لواحقین، انسانی حقوق کے کارکنوں، اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کر کے اپنے اظہارِ یکجہتی اور مطالبہِ انصاف کو دہرایا۔
ماما قدیر نے کہا کہ بلوچستان میں قانون و انصاف کا کوئی عملی وجود نہیں رہا۔ پاکستانی سیکیورٹی ادارے شہریوں کو اپنی چوکیوں اور کیمپوں میں بلا کر بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، یا پھر ماورائے عدالت قتل کر دیتے ہیں۔ کسی بھی ادارے کا احتساب نہیں کیا جاتا، جس سے ریاستی مشینری میں مجرمانہ ذہنیت پروان چڑھ رہی ہے۔
انہوں نے ایک حالیہ واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 9 جون کو کولواہ کے علاقے رودکان میں نواب ولد نور بخش نامی نوجوان کو جرک فوجی کیمپ میں طلب کیا گیا، جہاں اسے تشدد کر کے قتل کیا گیا۔ اس کے جسم پر بجلی کے جھٹکوں اور دیگر تشدد کے نشانات واضح تھے۔ ماما قدیر نے کہا کہ ایسے سنگین جرائم سے ریاست خود کو بری الذمہ نہیں ٹھہرا سکتی۔ انصاف کی فراہمی کو چاہے جتنا بھی مؤخر کیا جائے، بلوچستان کے عوام کا مطالبۂ انصاف اور ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت ختم نہیں ہوگی۔ریاستی تشدد کا اس کا حل نہیں ، قانون کو بحال کرکے انصاف کیا جائے۔