فلسطینی ہلالِ احمر نے کہا کہ اسرائیل محصور علاقے کے مرکز اور جنوب میں اپنے حملوں میں تیزی لایا ہے جس کے بعد جنوبی غزہ کے ایک ہسپتال کے قریب اسرائیلی گولہ باری سے گذشتہ دو دنوں میں 41 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے انسانی ہمدردی کے دفتر نے جمعرات کو کہا کہ دیر البلاح اور خان یونس کے ارد گرد لڑائی میں شدت آنے کے بعد حالیہ دنوں میں ایک اندازے کے مطابق 100,000 مزید بے گھر افراد جنوبی سرحدی شہر رفح پہنچے ہیں جو پہلے ہی کافی مخدوش حالات کا شکار ہے۔

یہ اضافی نقلِ مکانی اس وقت ہوئی جب مصری حکام جمعہ کے روز قاہرہ میں حماس کے اعلیٰ سطحی وفد سے ملاقات کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ اس ملاقات میں ایک نئی تجویز پر گفتگو ہو گی جس کا مقصد غزہ میں تقریباً تین ماہ سے جاری جنگ کو ختم کرنا ہے۔

فلسطینی ہلالِ احمر نے جمعرات کے روز خان یونس کے الامل ہسپتال کے قریب اسرائیلی گولہ باری کی مذمت کی جس کے نتیجے میں “دس افراد شہید اور کم از کم 21 زخمی ہوئے” اور مزید کہا کہ اس سے ایک دن پہلے بھی ہسپتال کے سامنے حملہ ہوا تھا جس میں میں 31 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

گروپ نے ایک بیان میں کہا، “جاں بحق ہونے والوں میں ہسپتال کے سامنے موجود افراد اور پی آر سی ایس (ہلالِ احمر) کے احاطے میں پناہ لینے والے بے گھر افراد بھی شامل ہیں۔”

بعد میں غزہ میں حماس کے زیرِانتظام وزارتِ صحت نے کہا کہ مصر کے ساتھ جنوبی سرحد پر واقع رفح کے شبورہ کیمپ میں اسرائیلی گولہ باری سے 20 افراد جاں بحق ہو گئے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔

شہر سے اے ایف پی کی فوٹیج میں خون آلود لوگوں کو گلیوں سے قریبی کویتی ہسپتال لے جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے جہاں بچوں سمیت زخمی مریضوں کے ایک سیلاب کو طبی امداد دینے کے لیے عملے کی دوڑیں لگ گئیں۔ اے ایف پی فوری طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا کہ آیا وہ اسی حملے کا شکار تھے۔   غزہ میں جنگ نے علاقے کے شمال کا بیشتر حصہ کھنڈرات میں بدل کر رکھ دیا ہے جبکہ محاذ جنگ مزید جنوب کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔   اسرائیل نے حماس کو 7 اکتوبر کے حملے کے بدلے میں تباہ کر دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔   حملے کے دوران 250 کے قریب افراد یرغمال بھی بنائے گئے جن میں سے نصف سے زیادہ بدستور قید میں ہیں – ان کے اہل خانہ کے لیے یہ شدید پریشانی کا باعث ہے جنہوں نے جمعرات کو یروشلم میں “انہیں گھر واپس لانے” کے مطالبے کے ساتھ احتجاج کیا۔   وزارتِ صحت کے مطابق غزہ پر اسرائیل کی مسلسل فضائی بمباری اور زمینی حملے میں کم از کم 21,320 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔   ‘میری بیٹیاں چیخ رہی تھیں’ اسرائیلی فوج نے حال ہی میں کہا ہے کہ اس نے حماس کے غزہ رہنما یحییٰ سنوار کے آبائی شہر خان یونس میں ایک اضافی بریگیڈ تعینات کر دی ہے جہاں اے ایف پی کے نامہ نگاروں نے مسلسل فضائی اور توپ خانے کے حملوں کی اطلاع دی۔   اسرائیلی وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ نے جمعرات کو فوجیوں کو بتایا، “ہماری افواج خان یونس میں جو مشن انجام دے رہی ہیں، وہ بے مثال ہیں – کنٹرول رومز پر قبضہ اور دہشت گردوں کو ختم کرتے ہوئے ہماری افواج ان علاقوں تک پہنچیں جہاں ہم پہلے کبھی نہیں گئے تھے۔”   اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ کے 2.4 ملین افراد میں سے 80 فیصد سے زیادہ کو ان کے گھروں سے نکلنا پڑا ہے اور بہت سے لوگ اب رفح کے آس پاس دور جنوب میں تنگ پناہ گاہوں یا عارضی خیموں میں رہ رہے ہیں۔   وہاں کے رہائشیوں نے جمعرات کو ایک فضائی حملے کے بعد بچ جانے والے ملبے کو کھنگالا جس میں ایک عینی شاہد کے مطابق “کئی افراد جاں بحق” ہوئے۔   تیسیر ابو العیش نے کہا، “ہم سکون سے [گھر میں] بیٹھے تھے کہ اچانک ایک زوردار دھماکے کی آواز سنی اور ملبہ ہم پر گرنے لگا۔ اپارٹمنٹ مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا اور میری بیٹیاں چیخ رہی تھیں۔”   برسوں کی ناکہ بندی کے بعد 7 اکتوبر کے بعد مسلط کردہ اسرائیلی محاصرے نے غزہ کے باشندوں کو خوراک، پانی، ایندھن اور ادویات سے محروم کر دیا ہے۔   بنیادی طور پر مصر کے راستے داخل ہونے والے انسانی امدادی قافلوں کی وجہ سے شدید غذائی قلت وقتاً فوقتاً کم ہوئی ہے۔   اسرائیل نے جمعرات کو کہا کہ اس نے بحیرۂ روم کے جزیرۂ قبرص کو غزہ میں امداد بھیجنے کے لیے “بحری لائف لائن” کے لیے ابتدائی منظوری دے دی ہے۔