اسرائیل (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق رواں ہفتے ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب حالیہ دنوں میں لبنان اور شام کے ساتھ اسرائیلی سرحدی علاقے میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا اور اسرائیلی سیکیورٹی فورسز آمنے سامنے آ گئے، پھر رواں ہفتے نامعلوم فضائی بمباری میں متعدد عسکریت پسند ہلاک ہو گئے، یہ حملہ عراقی سرحد کے قریب شامی اڈے پر کیا گیا تھا۔
اسرائیل کی شمالی سرحد کے اندر شام سے داخل ہونے والے چار مسلح افراد کو ہلاک کرنے کے بعد اسرائیلی فورسز کو ہائی الرٹ کر دیا گیا تھا، اسرائیل کا خیال ہے کہ ایران، شام اور لبنان کی آڑ میں چھپ کر حملہ کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی سٹڈیز کے تجزیہ کار جنرل عصاف ارئیون کہتے ہیں کہ اگر ہم پوری لاجسٹک پر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایران، عراق سے ہوتے ہوئے شام اور لبنان میں اپنا اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ اسرائیل پچھلے برسوں میں ان سرگرمیوں کو روکنے میں اور حزب اللہ کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوا ہے۔
شام میں ہونے والے حالیہ حملے نے ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے، ایک اور عسکری تجزیہ کار یوسی کوپر واسر کہتے ہیں کہ دو مسئلوں پر ایران اور اسرائیل کی چپقلش جاری رہتی ہے، ایک تو واضح طور پر ایران کا جوہری پروگرام ہے اور دوسرا ایران کی جانب سے اسرائیل کی سرحد کے قریب اپنا اثر و نفوذ قائم رکھنے کی کوشش۔
جولائی میں ایران کے شہر نطنز میں ایرانی سینٹری فیوجیز میں ہونے دھماکے کے بارے میں ایران اسے امریکہ اور اسرائیل کی سازش قرار دیتا ہے، ایران نے بدلہ لینے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے، تاہم اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں اس کا ہاتھ نہیں ہے۔
عسکری تجزیہ کار یوسی کوپر واسر کہتے ہیں کہ جس جگہ یہ دھماکہ ہوا وہاں جدید ترین سیٹری فیوجز کو تیار کیا جاتا ہے اور انہی سینٹری فیوجز کے ذریعے ایٹمی صلاحیت حاصل ہوتی ہے، یہ عام سینٹری فیوجز کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے یورینیم کو افزودہ کر سکتے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان سائبر حملے بھی جاری ہیں، ایک کے نشانے پر اسرائیل کے پانی کا نظام ہے تو دوسرے کے نشانے پر ایرانی بندر گاہ۔
عسکری امور کے ایک صحافی رونین برگمین کہتے ہیں کہ جب ایرانی اسرائیل کے پانی کے نظام پر سائبر حملہ کرتے ہیں اور اسے بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسرائیلی ایرانی بندر گاہ کو چلانے والے کمپیوٹر نظام کو نشانہ بناتے ہیں، فی الحال یہ سائبر حملے محدود پیمانے پر ہوتے ہیں۔