غزہ(ہمگام نیوز ) فلسطینی ہلال احمر نے بدھ کے روز اسرائیل پر الزام لگایا کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کےعلاقوں سے لاشوں کی منتقلی کو روک دیا ہے۔

فلسطینی ہلال احمر کے شعبہ اطلاعات کے انچارجش راید النمس نے ’العربیہ ‘کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہاں پورے پورے محلے زمین بوس ہو چکے ہیں، جن میں گھر، مساجد، شیلٹر سکول اور گرجا گھر شامل ہیں اور ان کے ملبے تلے ہزاروں لوگ دبے ہوئے ہیں۔ ہرطر لاشیں ہیں، تعفن پھیل رہا ہے جس کی وجہ سے وبائی اور ماحولیاتی المیہ جنم لینے کا خدشہ ہے۔

انہوں نےمزید کہا کہ “غزہ میں جانی نقصانات تصور سے بھ زیادہ ہے۔ امداد کی رقم صحت اور امدادی شعبے کی 10 فیصد ضرورت کو پورا نہیں کرتی۔”

ایندھن کی قلت

انہوں نے بیان میں مزید کہا کہ “ایندھن کے ٹرک کافی نہیں ہیں۔ ہم غزہ کی پٹی میں بڑی مقدار میں ایندھن کی سپلائی کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ اہم سہولیات اور ہسپتالوں کو دوبارہ فعال کیا جا سکے۔

کل ہلال احمر نے اطلاع دی کہ فوجی دستوں نے ایندھن کے ایک ٹرک کے داخلے کو روک دیا جسے شمالی ساحلی پٹی میں جانا تھا۔ اس سے قبل منگل کے روز اعلان کیا گیا تھا کہ ایندھن کے ٹرک کے علاوہ امداد، خوراک اور پانی پر مشتمل 31 ٹرک غزہ شہر اور شمالی غزہ کی پٹی میں داخل ہوئے تھے۔

انہوں نے ایک بیان میں وضاحت کی کہ ایندھن کا ٹرک “شمالی غزہ کی پٹی میں کام کرنے والی 7 ایمبولینسوں کے کام کو بڑھا دے گا، کیونکہ انہیں ایندھن ختم ہونے کی وجہ سے کام روکنے کا خطرہ تھا”۔

ہر طرف لاشوں کے ڈھیر

کل منگل کو بین الاقوامی ریلیف ایجنسی (UNRWA) کے ترجمان نے ’العربیہ ‘ کو بتایا کہ غزہ کی پٹی میں انسانی امداد سے فرق پڑتا ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔

کاظم ابو خلف نےالعربیہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر اس معاملے کا تدارک نہ کیا گیا تتو غزہ تباہی کے دہانے پر ہے۔

حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی نے کئی ہفتوں سے جاری اسرائیلی بمباری کی وجہ سے ہونے والی تباہی کی بڑے پیمانے پر انکشاف کیا، جب کہ سینکڑوں اور شاید ہزاروں لوگ اب بھی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں جب کہ بہت سے لوگوں کا پتا نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مر چکے ہین۔

رام اللہ میں فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ جنگ بندی کے آغاز سے ایک روز قبل اسرائیلی بمباری سے شہید ہونے والےفلسطینیوں کی تعداد تقریباً 15000 تک پہنچ گئی ہے، جن میں سے دو تہائی خواتین اور بچے تھے۔