ریاض:(ہمگام نیوز) سعودی سفارتکار کے کہنا ہے یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر اسرائیل سے تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔ مگر ہمارے ساتھ دوسری جانب ایسا شراکت دار نہیں ہے جو اس سلسلے میں ہماری مدد کر رہا ہو۔ واضح رہے اسرائیل ہہ بار بار کہتا رہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ان کی آزاد ریاست دینے کو تیار نہیں ہے۔ خصوصا سات اکتوبر کے بعد اس نے یہ موقف کئی بار دہرایا ہے۔

حال ہی میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے اس سلسلے میں ایک قرار داد کے حق میں ووٹ بھی دیا ہے۔ کہ فلسطینی ریاست قبول نہیں ہے۔ ان کا یہ انکار بلا شبہ دہائیوں سے جاری تصادم کو کم نہیں کرتا ہے۔ اس کے بر عکس عرب ملکوں نے کافی عرصے سے یہ کہہ رکھا ہے کہ اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ اسرائیل فلسطینی ریاست کا قیام قبول کر لے۔ یہ کھڑکی آج بھی کھلی ہے۔ سعودی سفارت کار نے کہا لیکن لازم ہے کہ فلسطینی ریاست ناقابل تنسیخ ہو گی ناقابل واپسی ہو گی۔

یہ اسرائیلی وزیر اعظم پر منحصر ہو گا کہ وہ اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں کہ نہیں۔

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان بھی ہمیشہ 1967 والی فلسطینی سرحدوں پر مبنی ریاست کی بات کرتے رہے ہیں۔ جو مکمل آزاد ہو اور جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔ گویا سعودی عرب کے مؤقف میں کبھی بھی کوئی کمزوری یا تبدیلی نہیں آئی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کی رات سٹیٹ آف دی یونین خطاب کے دوران مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنے پرانے مؤقف کو ہی دہرایا ہے جو امریکہ کا مؤقف بھی رہا ہے۔ کہ اسرائیل کی سلامتی کی واحد ضمانت اور واحد راستہ دو ریاستی حل ہے۔

انہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا ‘اسرائیل اور سعودی عرب کے ساتھ ساتھ دیگر عرب ہمسایہ ملکوں کے درمیان بھی امن کی ضمانت دینے والا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔’

‘نارملائزیشن’ کے لیے امریکی کوششیں جو بائیڈن انتظامیہ ایک طویل عرصے سے کوشش میں ہے کہ کسی طرح اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان ایک معاہدہ کی صورت بنا سکے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے پچھلے اکتوبر میں سعودی عرب کا دورہ کیا تو ‘نارملائزیشن’ کا تفصیلی منصوبہ رکھا۔

ریاض کا یہ مسلسل کہنا ہے کہ ‘نارملائزیشن’ کے کسی بھی عمل کے لیے آزاد فلسطینی ریاست کی حیثیت ایک کلید کی ہوگی۔ سات اکتوبر سے پہلے فلسطین کے تین زون بنانے کی تجویز تھی۔ جبکہ حتمی طور پر سعودی عرب یہی کہتا ہے کہ 1967 کی سرحد کی بنیاد پر فلسطینی ریاست قائم ہو۔ جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔

عرب سفارت کار نے کہا ‘اگر ہم نے اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کر لی تو سعودی عرب پر ہونے والے کسی حملے کی صورت میں کون سعودی عرب کو تحفظ دے گا۔’ سعودی عرب اور عرب دنیا کے باقی ملکوں کئے لیے اسلحہ پر پابندی لگنے کی صورت میں کون ہماری مدد کو آئے گا۔’ سعودی سفارت کار سے پوچھا گیا: ‘کیا امریکہ اسرائیل کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نارملائزیشن کے لیے اس قدر بےچین ہے؟ تو جواب دیا گیا بالکل، اسی قدر بےچین ہے۔

دو ریاستی حل پر امریکی قانون سازوں کا بدلتا ہوا مؤقف ایک قابل ذکر پیش رفت حالیہ ہفتوں میں ہوئی ہے۔ امریکی قانون ساز جو عام طور پر دو ریاتی حل کی عام طور پر مخالفت کرتے تھے نے بند کمروں کئے اندر اپنے مؤقف کو تبدیل کیا۔ یہ دسمبر کی بات ہے۔ ری پبلیکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ‘سعودی عرب یا کوئی اور عرب ملک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو نارمل نہیں کر سکتا اگر وہ دیکھ رہا ہو کہ فلسطینیوں کو بسوں کے نیچے دیا جا رہا ہے۔ ہمارے پاس دو آپشنز ہیں، ایک یہ کہ جس طرح سات اکتوبر سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں وہ جای رکھیں یا یہ کہ سات اکتوبر کو ایک تبدیلی کے لیے استعمال کریں۔’

عرب سفارت کار نے نیتن یاہو سے کہا ‘وہ اسرائیلی سوسائٹی کے لیے امن، خوشحالی اور استحکام لا سکتے ہیں۔ لیکن وہ سات اکتوبر کے بعد کی جنگ کی صورت میں نہیں۔’ حماس کے سات اکتوبر کے حملوں سے پہلے امریکی حکام یہ کھلے عام کہنے لگے تھے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان ‘نارملائزیشن’ قریب ہے۔ اب صرف معاہدہ کی نوک پلک سنواری جا رہی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ جو بائیڈن انتظامیہ کی بڑی کامیابی ہوتی۔