نائجیریا( ہمگام نیوز) نائجیریا کی فوج ہمیں ملک کے ان شمالی مشرقی علاقوں میں لےگئی جو انہوں نے حال ہی میں شدت پسند تنظيم بوکو حرام کے قبضے سے آزاد کرائے ہیں۔
ان میں سے بعض علاقوں تک سڑک کے راستے جانا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ شدت پسندوں نے لڑائی کے دوران یہاں پلوں کو اڑا دیا ہے۔
بوکو حرام کے قبضے والے علاقوں میں تباہی کے نشان واضح ہیں اوران علاقوں میں جھلسے پڑے بازار، گھر ، کھیت اور سرکاری دفاتراس تباہی کی گواہ ہیں۔
یہاں جو سائن بورڈز تھے ان کو کالے رنگ سے رنگ کر بوکو حرام نے عربی زبان میں اپنے پیغامات لکھ دیے ہیں ۔
ڈورون باگا نامی علاقے سے گزرتے ہوئے ایک خاتون فوجیوں سے کہ رہی تھی ‘ شکریہ، شکریہ’۔ یہ خاتون اپنے گاؤں کو شدت پسندوں سے آزاد کروانے کے لیے فوج کا شکریہ ادا کر رہی تھی۔
ان علاقوں میں اس خاتون جیسے کچھ ہی افراد موجود ہیں۔ بیشتر افراد لڑائی کے ڈر سے اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ علاقوں میں منتقل ہوگئے ہیں۔
ایسا مانا جاتا ہے کہ جنوری میں ہونے والے حملوں میں بوکوحرام نے کئی سو سے زائد افراد کو ہلاک کردیے اور اس کے بعد درجنوں عمارتوں کو نظر آتش کردیا۔
اب یہ علاقہ ویران ہے۔ شہر کے بڑے بازار میں جہاں کبھی ایک مصروف بس سٹاپ ہوا کرتا تھا وہاں اب جھلسے ہوئے گولے پڑے ہیں۔
سڑکوں پر ٹوٹی پھوٹی، جلی ہوئی موٹر سائیکلیں بکھری پڑی ہیں، ان کے پہییے نکلے پڑے ہیں اورسڑکے کے کنارے سڑی ہوئی لاشیں پڑی ہیں جن کی بدبو سے یہاں سے سانس لینا مشکل ہے۔
بعض خواتین دھوپ سے بچنے کے لیے پیڑ کی نیچے کھڑی ہیں، ان میں سے ایک نے ہمیں بتایا ’بوکو حرام کے جنگجوؤں نے میری بہن کو ہلاک کردیا۔‘
’ہم نے دوبارہ میدوگری جانے کی کوشش کی لیکن شدت پسندوں نے ہمیں جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ ہمیں بھوک لگتی تھی اور وہ ہمیں مشکل سے ہی کبھی کھانے کو دیتے تھے، جب فوجیوں نے ہمیں آزاد کرایا تھا تب انہوں نے ہمیں تھوڑا بہت کھانے کو دیا۔‘
فوج کی کامیابی کے باوجود بازیاب ہونے والے بعض علاقے ابھی بھی ویران ہیں۔ ان علاقوں میں صرف بعض خواتین، بچے اور ضعیف لوگ ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔
ابوبکر ایسا ہی ایک نوجوان لڑکا ہے۔ ان کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے اور جب مونگونو علاقے میں شدت پسندوں نے حملہ کیا تو بھاگ نہ سکے۔
ابوبکر نے بتایا ‘ میری دادی نے مجھے پلنگ کے نیچے چھپا دیا۔ وہ عورتوں کو کچھ نہیں کہتے ہیں، خاص طور سے بوڑھی عورتوں کو، لیکن وہ حرام خور مردوں کو مارتے ہیں، وہ مردوں کی تلاش میں ہی آئے تھے لیکن چونکہ انہیں کوئی مرد نہیں ملا تو وہ چلے گئے۔‘
مبی علاقے کا اہم کمرشل سینٹر اداماوے سٹیٹ ویران پڑا ہے، وہاں صرف اب گشت لگاتے فوجی دکھائے دیتے ہیں۔
اس علاقے کے مسلم لیڈر امیر ابوبکر احمدو نے بتایا ’میں موبی کے عوام سے التجا کرتا ہوں کہ گھر واپس آجاؤ تاکہ ہم موبی کو پہلے سے زيادہ بہتر بناسکیں۔‘
اتنی تباہی کے بعد اس خطے کو بڑے پیمانے پر آباد کاری کی ضرورت ہے۔ اور یہ کام وہاں کے عوام واپس آکر خود اکیلے نہیں کرسکتے ہیں۔
فوج کے اندر یہ احساس ہے کہ جو کام حکومت کو کرنا چاہیے تھا وہ فوج پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
یہ سوال بھی پیدا ہورہا ہے کہ بے گھر افراد کو واپس آنا چاہیے یہ وہ تب تک اپنے گھروں سے دور ہی رہیں جب تک فوج اپنا آپریشن مکمل نہیں کرلیتی ہے۔
ایسی اطلاعات آتی رہتی ہیں کہ جنگجوؤں کی جانب سے پھیلائی گئی بارودی سرنگوں کی وجہ سے یا تو فوجی ہلاک یا زخمی ہورہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بوکو حرام کے شدت پسندوں نے اپنے علاقوں کے ارد گرد بم بچھا دیے ہیں۔ ایک فوجی نے ہمیں 20 میٹر لمبی ایسے سڑک دکھائی جہاں سے ان کے بقول انہوں نے 29 بم دریافت کیے ہیں۔
فوج کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کی اسی طرح کی کاروائیوں کی وجہ سے یہ لڑائی مشکل ہورہی ہے۔ لیکن اس سے فوج کا جذبہ کم نہیں ہوا ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ بوکو حرام نے گزشتہ چھ برس سے خطے کا چین حرام کررکھا ہے فوج نے چند ہی ہفتوں میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔
فوج کو یہ کامیابی تب حاصل ہوئی جب چاڈ، نائجر، اور کیمرون جیسے پڑوسی ممالک نے بھی شدت پسندوں کے خلاف اس لڑائی میں فوج کا ساتھ دیا۔
حالانکہ کہا جاتا ہے کہ ان پڑوسی ممالک کی تعریف سے نائجیریا کو شرمسار ہونا پڑا ہے۔ حالانکہ نائجیریا کی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بوکو حرام مخالف اتحادی ممالک کے درمیان اس طرح کی کوئی کشیدگی نہیں ہے۔
چیڈ جھیل کے قریب باگا علاقے میں کثیر ملکی فوج کے اڈے پر صرف نائجیریا کے فوجی موجود ہیں۔ سفارتی سطح پر جو بھی مسائل ہوں، یہ فوجی پراعتماد ہیں اور ان کے حوصلے بلند ہیں۔ فوجیوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے ہوتے ہوئے نائجیریا کی سرزمین کو اپنے ہاتھوں سے جاتا ہوا نہیں دیکھ سکتے ہیں۔