کابل۔ہمگام نیوز۔ افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے غزنی کے ایک اہم ضلع پر طالبان نے حملہ کرکے 100سے زائد افراد کو بے دردی سے قتل کردیا جبکہ متعدد گھر نذر آتش کردیے،مقامی باشندوں نے اپنی جانیں بچانے کیلئے پہاڑوں پر پناہ لے رکھی ہے جبکہ حکام خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ شدت پسند یہاں قابض ہو سکتے ہیں۔جمعہ کو افغان میڈیا کے مطابق مقامی حکام کا کہناہے کہ تقریبا 800 طالبان جنگجوؤں جس میں 200 غیر ملکی بھی شامل ہیں نے ضلع آجرستان میں حملہ کیا ہے اور متعدد گھروں کو نذر آتش کرنے کے علاوہ لگ بھگ 100افراد کو ہلاک کر دیا۔ مشرقی صوبہ غزنی میں پولیس کے نائب سربراہ اسد اﷲصافی کا کہناہے کہ صوبائی انتظامیہ کا ضلع اجرستان کی پولیس سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے اور اگر ہنگامی طور پر مرکزی حکومت کی طرف سے مدد نہ پہنچی تو اس صوبے کا کنٹرول ختم ہو سکتا ہے۔ طالبان نے جمعرات کو دیر گئے مقامی اور نیشنل پولیس اہلکاروں کے خاندان کے تقریباً 12 افراد کے سر قلم کر دیے، طالبان نے ایک ایسی جگہ کار بم دھماکا بھی کیا جہاں لگ بھگ 40پولیس اہلکار موجود تھے۔ اسداﷲصافی کا کہنا تھا کہ جمعہ کو بھی اجرستان میں لڑائی میں جاری تھی۔صوبائی کونسل کے سربراہ کا کہناہے کہ جھڑپیں جمعرات سے جاری ہیں اور طالبان جنگجوؤں نے اہم نقل وحمل کے راستوں کو بندکردیا ہے،جنگجوؤں نے شہریوں کوفائرنگ کرکے اور جلا کر ہلاک اور زخمی کیاہے ۔دریں اثناء ایک مقامی سیکورٹی حکام نے بتایا ہے کہ ضلع آجرستان میں طالبان کے ہاتھوں شہریوں کے قتل عام اور عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتیں مماثلت رکھتی ہیں۔دریں اثناء صوبائی کونسل کے سربراہ کا کہناتھاکہ علاقے میں جاری شدید لڑائی کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے ،مقامی باشندوں کی اکثریت پہاڑوں پر پناہ لیے ہوئے ہے۔ طالبان کی پرتشدد کارروائیوں میں حالیہ مہینوں میں اضافہ دیکھا جاچکا ہے لیکن آجرستان میں ہونے والے اس حملے کو ملک کے نامزد صدر اشرف غنی کی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج قرار دیا جا رہا ہے جو جلد ہی اپنا منصب سنبھالنے والے ہیں۔ایک منصوبے کے تحت افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج 13 سالہ جنگ کے بعد رواں برس کے اختتام تک اپنے وطن واپس چلی جائیں گی۔امریکہ نے افغانستان کے ساتھ ایک دوطرفہ سلامتی کا معاہدہ تجویز کر رکھا ہے جس کے تحت بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد بھی لگ بھگ نو ہزار امریکی فوجی یہاں رہ کر مقامی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ان کی معاونت کریں گے۔یہ معاہدہ نئے افغان صدر کے دستخط کے بعد قابل عمل ہو سکے گا۔