کابل (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ‘ہماری تین رکنی ٹیکنیکل ٹیم اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے ان کی شناخت اور واپسی کے حوالے سے مدد کرے گی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اس سلسلے میں فریق مخالف (افغان حکومت) سے معاہدہ کریں گے اور ان کا عملی کام آنے والے دنوں میں شروع ہوگا’۔
واضع رہے کہ اس سے قبل طالبان سے افغان حکومت کو امریکی کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے انکار کیا تھا تاہم امریکا سے معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات پر اتفاق پایا گیا تھا۔ طالبان نے قیدیوں کی رہائی سے متعلق مذاکرات کے لیے 10 رکنی وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ وفد کو افغانستان میں کورونا وائرس کے باعث محدود کردیا گیا۔
ادھر افغان حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی مذاکراتی ٹیم کی توثیق صدر اشرف غنی کے سب سے بڑے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ نے بھی کردی ہے، جس کے بعد ان مذاکرات کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔
عبداللہ عبداللہ نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ ‘بین الافغان مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے مذاکراتی ٹیم کی تشکیل ایک اہم قدم ہے’۔
طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ بنیادی نکتہ رہا ہے جس کے باعث امن مذاکرات بھی معطل ہوتے رہے ہیں۔
طویل محنت کے بعد طالبان کا وفد بین الافغان مذاکرات کے لیے کابل پہنچ گیا ہے جس کو کابل کے ایک شان دار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا ہے۔افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے تشکیل دیے گئے مذاکراتی وفد کی عبداللہ عبداللہ کی جانب سے توثیق کو امریکا نے حمایت کرتے ہوئے اچھی خبر قرار دیا ہے۔
عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے درمیان 2019 کے صدارتی انتخاب میں ہونے والے شدید اختلاف کے بعد یہ مرحلہ مشکلات کا شکار نظر آرہا تھا اور امریکا سمیت دیگر فریقین نے خدشات کا اظہار کیا تھا۔خیال رہے کابل میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ یہ ایک اچھی خبر اور مثبت پیش رفت ہے کہ افغان حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ٹیم پر اتفاق کیا گیا ہے۔
مائیک پومپیو نے واشنگٹن میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ‘مذاکراتی ٹیم کو منظور کیا جارہا ہے جو ایک بہترین عمل ہے اور اس حوالے سے ہمیں خوشی ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے کچھ کام ہوتا ہوئی ہم دیکھ چکے ہیں جس کے لیے تمام فریقین جمع ہوئے ہیں اور ہم بین الافغان مذاکرات کے مرحلے میں داخل ہوسکتے ہیں’۔
بین الافغان مذاکرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘لوگوں کو امن و مفاہمت کی امید دلانے کے لیے یہی واحد راستہ ثابت ہوگا’۔
خیال رہے کہ پومپیو نے گزشتہ ہفتے کابل اور دوحہ کا دورہ کرکے افغان حکومت اور طالبان پر زور دیا تھا کہ وہ امن عمل کو آگے بڑھائیں۔
دو روز قبل ہی طالبان کے ترجمان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ‘گروپ حکومت کی اس ٹیم سے مذاکرات نہیں کرے گا کیونکہ اس میں تمام افغان دھڑوں کی نمائندگی نہیں ہے’ تاہم تمام دھڑوں کی جانب سے اتفاق رائے کے بعد طالبان نے اپنا وفد بھی بھیج دیا۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ افغان حکومت نے جس ٹیم کا اعلان کیا وہ امریکا کے ساتھ اس کے معاہدے کی ‘خلاف ورزی’ ہے کیونکہ تمام فریقین اس ٹیم پر رضامند نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘دیرپا اور حقیقی امن کے حصول کے لیے اس ٹیم پر تمام موثر افغان فریقین کا رضامند ہونا ضروری ہے تاکہ وہ تمام فریقین کی نمائندگی کر سکے’۔