اقوامِ متحدہ کے انڈر سکریٹری برائے انسانی امور نے اسرائیلی وزراء کے غزہ سے فلسطینیوں کے انخلاء کے بیانات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دوبارہ جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
مارٹن گریفتھس نے سلامتی کونسل سے خطاب میں کہا کہ”جب تک ہم اقدامات نہیں کریں گے، یہ ہماری انسانیت پر ایک ان مٹ نشان بن جائے گا۔ میں ایک بار پھر اس کونسل سے جنگ کو ختم کرنے کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کرتا ہوں۔”
گریفتھس نے غزہ کی پٹی میں بگڑتی ہوئی انسانی تباہی کی ایک خوفناک تصویر کشی کی۔
غزہ کی حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے حماس کو تباہ کرنے کے عزم کے بعد سے اب تک 23,000 سے زائد فلسطینی جاں بحق اور 58,000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
گریفتھس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، “بے لگام” اسرائیلی کارروائی سے پیدا ہونے والی “خوفناک” صورتِ حال کو غزہ کے 2.3 ملین فلسطینیوں میں سے 85 فیصد کی نقلِ مکانی میں دیکھا جا سکتا ہے جو “بموں اور میزائلوں کی بارش میں بار بار بھاگنے پر مجبور ہیں۔”
انہوں نے کہا، “غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں۔”
انہوں نے کہا کہ “ہم اسرائیلی وزراء کے حالیہ بیانات سے سخت پریشان ہیں جو غزہ سے شہریوں کی بڑے پیمانے پر تیسرے ممالک میں منتقلی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جسے فی الحال ‘رضاکارانہ نقلِ مکانی’ کہا جاتا ہے۔”
گریفتھس نے کہا، اس طرح کے بیانات سے “غزہ کی پٹی سے فلسطینی آبادی کی ممکنہ جبری منتقلی یا ملک بدری کے بارے میں” خدشات پیدا ہوتے ہیں جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
انتہائی دائیں بازو کی اسرائیلی کابینہ کے وزراء کے بیانات نے اسرائیل کے قریبی اتحادی امریکہ کو بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کرنے پر آمادہ کیا ہے۔
امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ اور ان کی برطانوی ہم منصب باربرا ووڈورڈ نے ملاقات کے دوران ان خدشات کو دہرایا۔
اسرائیلی حکام بشمول وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ ان کا غزہ سے فلسطینی آبادی کو زبردستی منتقل کرنے کا منصوبہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کی بین الاقوامی فوجداری عدالت میں جنوبی افریقہ کے الزامات کہ اسرائیل کا جارحانہ اقدام فلسطینیوں کے خلاف ریاستی قیادت میں نسل کشی کی مہم ہے، اسرائیل کی جانب سے ان الزامات کو جھوٹے اور “انتہائی مسخ شدہ” کے طور پر مسترد کیے جانے کے چند ہی گھنٹے بعد کونسل کا اجلاس منعقد ہوا۔