نیویارک (ہمگام نیوز) امریکہ کے ایوان نمائندگان نے اس بین الاقوامی فوجداری عدالت کے خلاف پابندیوں کے بل کو کثرت رائے سے منظور کیا ہے جس نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے جنگی جرائم کی بنیاد پر ان دونوں اسرائیلی شخصیات کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
امریکہ کے ایوان نمائندگان نے حالیہ صدارتی انتخاب کے بعد یہ پہلا بڑا اقدام کیا ہے۔ جس کا مطلب اسرائیل کا ہر صورت اور ہر سطح پر ساتھ دینا اور اسرائیل کے خلاف کسی بھی کوشش کو روکنا ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے جنگی جرائم کو روکنے کی کوشش پر اسرائیل میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ جبکہ امریکی ایوان نمائندگان نے اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اسرائیل کے جنگی جرائم کو تحفظ دینے کا راستہ اختیار کیا ہے۔ یہ بل ریپیبلیکن ارکان کی طرف سے ایوان میں پیش کیا گیا۔ جس کے بعد تمام ریپیبلیکن ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیے۔ جبکہ کئی ڈیموکریٹس نے بھی بل کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کے ریپیبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے چیئرمین برائے خارجہ امور کمیٹی نے کہا ہے کہ امریکہ یہ قانون کینگرو کورٹ کے خلاف منظور کر رہا ہے۔ جس نے ہمارے عظیم اتحادی اسرائیل کے وزیراعظم کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔
واضح رہے امریکی ایوان نمائندگان کا یہ پہلا بل تھا جو پانچ نومبر کے بعد بننے والی نئے ایوان نمائندگان نے منظور کیا ہے۔
امریکی نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھی ریپیبلیکن پارٹی کے ارکان ایوان نمائندگان پوری طرح اسرائیلی حکومت کے ساتھ ہیں۔ ان ریپیبلیکنز کی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت نے امریکہ کے قانون ساز ادارے کے اس عمل پر فوری ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
یاد رہے ٹرمپ انتظامیہ نے 2020 میں بھی فوجداری عدالت پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ اس وقت فوجداری عدالت نے افغانستان میں امریکہ کے جنگی جرائم کی تحقیقات کی کوشش کی تھی۔ نیز فوجداری عدالت نے اس الزام کو بھی دیکھنا تھا کہ امریکی شہریوں نے تشدد کا ارتکاب کیا ہے۔
تاہم بعد ازاں جوبائیڈن انتظامیہ نے فوجداری عدالت پر عائد کی گئی ان پابندیوں کو واپس لے لیا تھا۔ البتہ پچھلے ماہ مئی میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے یہ کہا تھا کہ وہ کانگریس کے ساتھ مل کر بین الاقوامی فوجداری عدالت پر پابندیاں لگانے کی کوششوں کا حصہ بننے کو تیار ہیں۔
واضح رہے پانچ سال پہلے بین الاقوامی فوجداری عدالت پر لگائی گئی امریکی پابندیوں کے نتیجے میں فوجداری عدالت کی پراسیکیوٹر فاٹوبینسوڈا اور دوسرے سٹاف ممبران کے کریڈٹ کارڈز اور بنک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے تھے اور انہیں امریکہ میں داخلے سے بھی روک دیا گیا تھا۔ اب بھی اسی طرح کی پابندیاں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے حکام کے خلاف لگائے جانے کا امکان ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کی صدر ٹماکواکانے نے پچھلے ماہ کہا تھا کہ اس طرح کے اقدامات بین الاقوامی فوجداری عدالت کو کمزور کرنے کی کوششیں ہیں۔ جس سے عدالت کی کارروائی اور کارکردگی پر تیزی سے اثر پڑے گا۔ حتی کہ اس کے مقدمات اور وجود پر بھی اثر پڑے گا۔
نومنتخب امریکی صدر 20 جنوری کو دوسری مدت کے لیے اپنا عہدہ سنبھالنے والے ہیں۔
دوسری جانب سینیٹ کے نومنتخب لیڈر جان تھیون نے بھی وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ پابندیوں کے معاملے کو اپنے چیمبر میں بھی دیکھیں گے اور پھر اس کے بعد ٹرمپ کے دستخطوں سے یہ بل ایک قانون بن جائے گا۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت جنگی جرائم کے مرتکب افراد اور حکام کو کٹہرے میں لانے والا فورم ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے اپنے ایک بیان میں کہہ رکھا ہے کہ اس کی طرف سے اسرائیل کے اعلیٰ عہدیداروں کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی بات اس طرح کے تمام کیسز کے عین مطابق ہے۔ جو فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کے اب تک کے جائزے اور سفارش کی بنیاد پر جاری کیے گئے ہیں۔
امریکی ایوان نمائندگان کے ریپیبلیکن ارکان بین الاقوامی فوجداری عدالت کو پچھلے کئی ماہ سے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ جب سے اس نے جنگی جرائم کے ارتکاب کے سلسلے میں نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔