واشنگٹن (ھمگام نیوز)امریکی رکن کانگریس بریڈ شرمین نے پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوریت کی مسلسل خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک میں آزادی اظہار اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے۔
بریڈ شرمین ڈیموکریٹ پارٹی کے رکن ہیں جو کیلیفورنیا کے 32ویں کانگریشنل ڈسٹرکٹ کی نمائندگی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کو دنیا بھر میں اور خاص طور پر پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی حمایت کرنی چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا پاکستان کے آئینی اور جمہوری عمل کے حوالے سے پاکستان کے اندرونی حکومتی معاملات میں خود کو شامل کرنا امریکا کا کردار نہیں لیکن ہمیں پاکستان یا کسی اور جگہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے آواز اٹھانے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
امریکی رکن کانگریس نے کہا کہ حکومت پاکستان اور ہر حکومت کو لوگوں کے بولنے کے حق، تنظیم کے حق، مظاہرے کے حق کا احترام کرنا چاہیے۔
بریڈ شرمین نے کہا کہ ’ہر کوئی ایک پرسکون، منظم، جمہوری اور خوشحال پاکستان دیکھنا چاہتا ہے جہاں پاکستانیوں کو کھلے اور سیاسی مکالمے کی آزادی ہو‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، جس کے ساتھ ملک طویل عرصے سے تاخیر کا شکار قرضہ پروگرام کے لیے بات چیت کر رہا ہے، بھی ایک مستحکم پاکستان دیکھنا چاہتا ہے جو قانون کی حکمرانی پر عمل پیرا ہو۔
انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ملک کو اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے، بڑھتی ہوئی انتہا پسندی، عدم برداشت اور اختلاف رائے پاکستان کے سماجی ہم آہنگی کے امکانات کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
بریڈ شرمین نے پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے حالیہ بم دھماکے کا بھی ذکر کیا جس میں تقریباً 80 سے زائد پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاستی اداروں کی شکایات کے حل کے لیے پرامن طریقے فراہم کرنے میں ناکامی ہی وہ خلا ہے جس کا انتہا پسندی کے ذریعے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں شہباز گل اور اعظم سواتی پر ’حراستی تشدد‘ اور ’جنسی زیادتی‘ کے واقعے پر خاصے پریشان ہیں۔
انہوں نے صحافی ارشد شریف کی ’بہیمانہ موت‘ کا بھی ذکر کیا، جنہیں کینیا میں گزشتہ سال گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا، اور پی ٹی آئی کے کارکن ظلِ شاہ، جن کے بارے میں پارٹی کا دعویٰ ہے کہ انہیں 8 مارچ کے انتخابی جلسے میں کریک ڈاؤن کے دوران مارا گیا تھا۔
بریڈ شرمین نے زور دیا کہ ’یہ وہ نہیں ہے جو آپ ایک جمہوری ملک میں دیکھنا چاہتے ہیں، سابق وزیراعظم عمران خان پر کیسز اور میڈیا پر پابندیاں بھی اتنی ہی قابل مذمت ہیں۔
امریکی رکن کانگریس کا کہنا تھا کہ ’میں یہاں پاکستان میں کسی سیاسی دفتر یا عمران کی حمایت کے لیے نہیں ہوں، درحقیقت میں کئی بین الاقوامی معاملات پر ان سے اختلاف کرتا ہوں اور نہ ہی پاکستان کی سیاست میں آنا میرا کام ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں آزادی اظہار، مناسب عمل اور پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے نفاذ کی وکالت کر رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی کانگریس پاکستان کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور انسانی حقوق کے حوالے سے حکومت کی کسی بھی قسم کی مدد کے لیے تیار ہے، پاکستانی حکام کو مبینہ بدسلوکی کی تحقیقات کرنی چاہیے اور جو بھی ذمہ دار ہو اس کا احتساب کرنا چاہیے۔