یکشنبه, نوومبر 24, 2024
Homeخبریںاوسلو مذاکرات: 'طالبان عالمی برادری کے مطالبات کو سنجیدہ نہیں لے رہے

اوسلو مذاکرات: ‘طالبان عالمی برادری کے مطالبات کو سنجیدہ نہیں لے رہے

اوسلو(ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں افغان طالبان کی حکومت کے نمائندوں کی مغربی ملکوں کے سفارت کاروں اور امدادی گروپ کے نمائندوں سے ہونے والی تین روزہ ملاقات کو ماہرین اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ افغان امور کے ماہرین کہتے ہیں اوسلو مذاکرات ماضی قریب میں طالبان رہنماؤں کی یورپی نمائندوں سے ہونے والی بات چیت کا نتیجہ ہیں۔

تفصیلات کے مطابق طالبان حکومت کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے ناروے کے دورے سے متعلق منگل کو کہا تھا کہ اس طرح کے دورے افغان حکومت کو دنیا کے مزید قریب لانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

افغان امور کے ماہرین کے خیال میں طالبان چاہتے ہیں کہ عالمی برادری ان کی حکومت کو تسلیم کرے تاکہ وہ دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی روابط استوار کر سکیں لیکن وہ اپنی سخت گیر پالیسیوں میں لچک کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔

بین الاقوامی برادری اس بات کا انتظار کر رہی ہے کہ افغانستان کی امداد جاری کرنے سے پہلے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ طالبان کس طرز کی حکومت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار سمیع یوسفزئی کے مطابق طالبان کو کابل کا اقتدار سنبھالے پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن اس دوران ملک میں انسانی خصوصاً خواتین کے حقوق کی پامالی کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔

ان کے بقول افغانستان میں وقت گزرنے کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالی کی صورتِ حال مزید سنگین شکل اختیار کر سکتی ہے۔ سمیع یوسفزئی نے کہا کہ طالبان عالمی کانفرنس کے موقع پر مختلف ملکوں٘ کے رہنماؤں، سیاسی شخصیات اور سفارتی اہلکاروں سے تو ملتے ہیں لیکن کابل میں بیٹھے حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ، گلبدین حکمت یار اور دیگر سیاسی شخصیات سے ملاقات نہیں کرتے۔

عالمی برادری کی جانب سے طالبان پر خواتین اور انسانی حقوق کی پاسداری یقینی بنانے پر زور دینے کے سوال پر سمیع یوسفزئی نے کہا کہ طالبان اس طرح کے مطالبات کو سنجیدہ نہیں لیتے کیوں کہ ان کے بقول، طالبان جمہوری نظام کا حصہ نہیں ہیں اور ان پر کوئی خاص دباؤ بھی نہیں ہے۔

واضع رہے طالبان حکومت کے قائم مقام وزیرِ خارجہ یا کسی بھی رہنما کا دورۂ اوسلو 15 اگست کو ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد یہ پہلا دورۂ یورپ تھا۔ اس سے قبل وہ کئی بار چین، قطر، روس، پاکستان، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے دورے کر چکے ہیں۔
افغان امور کے ماہر اور شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سویڈن میں مقیم محقق عبدالسید کا کہنا ہے کہ طالبان کی کوشش ہے کہ وہ عالمی دنیا خصوصاً مغربی ممالک کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ ذمے دار حکومت کی طرح افغانستان پر اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز