لندن ( ہمگام نیوز ) تل ابیب کے سیاسی عہدیداروں نے امریکہ میں حکومتی اداروں پر اپنا اثر و رسوخ کھونے کے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کردیا۔ صرف بائیڈن انتظامیہ نہیں اسرائیل کے اثر و رسوخ میں کمی “کانگریس” تک بھی پہنچ گئی ہے۔ اسرائیلی عہدیداروں نے زور دے کر کہا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ تہران، امریکہ اور باقی بڑے ملکوں کے درمیان ایک نیا جوہری معاہدہ طے پا جائے گا جو اسرائیلی حکومت اور اس کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو تنہا کر دے گا۔

نیتن یاھو کے قریب سمجھے جانے والے ایک عہدیدار نے مزید کہا کہ جو معاہدہ تیار کیا جا رہا ہے وہ عارضی ہو سکتا ہے لیکن ہونے والے افشا کے مطابق اس میں بڑے خطرات شامل ہیں۔ یہ ایران کو پابندیوں سے آزاد کردے گا۔ ایران اربوں ڈالر لگا کر اپنے روایتی اور غیر روایتی فوجی منصوبوں کو مضبوط کر لے گا۔

جمعرات کو متعدد اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی کہ اس تشویش کا اظہار کئی بند کمرے کے مباحثوں میں کیا گیا ہے۔ یہ مباحثے حال ہی میں تل ابیب میں مختلف سیاسی اور فوجی سطحوں پر ہوئے ہیں۔

اسرائیل میں جاری مباحثوں میں زور دیا گیا کہ اسرائیل کے لیے ایران کے ساتھ مفاہمت کے حوالے سے امریکی کانگریس میں حقیقی حزب اختلاف کو متحرک کرنا بہت مشکل ہوگا۔ اسرائیل کو ان رابطوں کے حوالے سے یورپی ملکوں کے موقف پر اثر انداز ہونے میں دشواری ہوگی۔ وہ دباؤ جو ماضی میں اسرائیل اور اس کے دوستوں نے ایران پر اثر انداز ہونے کی کوشش میں استعمال کیا تھا اب زیادہ حقیقت پسندانہ نہیں رہا۔

واضح رہے یہ تشویش اپنے عروج پر اس وقت پہنچی جب اعلیٰ سطح کے اسرائیلی وفد کی واشنگٹن کے دورے سے واپسی ہوئی جس میں سٹریٹجک امور کے وزیر رون ڈرمر، قومی سلامتی کونسل کے سربراہ زاچی ہنیگبی اور دیگر حکام شامل تھے۔ یہ عہدیدار امریکہ میں ایرانی جوہری معاملے پر بات چیت کرکے آئے تھے۔

نیم سرکاری ذرائع نے بتایا کہ وفد نے اسرائیلی تحفظات کو سختی سے اٹھایا اور تائید میں انٹیلی جنس ڈیٹا اور دستاویزات بھی پیش کی تھیں۔ وائٹ ہاؤس اور امریکی محکمہ خارجہ نے رد عمل میں کہا کہ ایک عبوری جوہری معاہدے پر بات ہوئی ہے اور کوئی نیا سمجھوتہ فی الحال میز پر نہیں ہے، کسی نئے سمجھوتے کے حصول میں کافی وقت لگے گا۔ تاہم اسرائیلی اندازے کے مطابق اس طرح کی تفہیم آنے والے ہفتوں میں اور شاید اس سے پہلے بھی سامنے آ سکتی ہے۔

اسرائیلی حکومت کا خیال ہے کہ اسرائیل کی حیثیت اور اثر و رسوخ میں کمی کی وجہ یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس اور سینیٹ پر ڈیموکریٹک پارٹی کا کنٹرول ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایوان نمائندگان میں ریپبلکن پارٹی کی اکثریت بہت کم ہے۔