پنجشنبه, اکتوبر 3, 2024
Homeآرٹیکلزایرانی و پاکستانی تصرف، بحیثیت قوم ہماری ذمہ داریاں تحریر : شے...

ایرانی و پاکستانی تصرف، بحیثیت قوم ہماری ذمہ داریاں تحریر : شے بجار

ہمگام کالم : تزویراتی حوالے سے انتہائی اہم بلوچ خطہ شروع دن سے غاصبوں اور جابروں کی بری نظروں میں رہا ہے. 13 نومبر 1839 کو برطانوی لشکر نے بلوچ سرزمین پر اپنے توسیع پسندانہ پنجے گھاڑنے کیلئے ریاست قلات پر حملہ آور ہو کر والی قلات میر محراب خان شہید کی حکومت کو معزول کر دیا اور اپنے وفادار میر شاہنواز کو تخت نشین کرا دیا جو ہر صورت برطانوی مفادات کو اس خطے میں تحفظ دینے کیلئے آمادہ تھا.
قلات پر قابض ہونے کے بعد بلوچ قومی طاقت و وحدت کو پارہ ، پارہ کرنے کیلئے برطانیہ نے بلوچ جیوگرافی کو بُری طرح مسخ کر کے گولڈسمتھ لائن (1871) کو کھینچ کر بلوچستان کو دو لخت کر کے مغربی بلوچستان ایرانی ملا رجیم کے انتظام میں داخل کرا دیا. اور دوسری طرف شمالی بلوچستان کو ڈیورنڈ لائن کے زریعئے بلوچ علاقوں کو افغانستان کے انتظام میں شامل کرا دیا جو دونوں قوموں یعنی بلوچ اور پشتون کیلئے آج تک قابل قبول نہیں رہا۔ جس پر تنازعہ آج بھی جاری ہے.
تاریخ میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قابضین اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے کسی بھی مقبوضہ ملک کے جیو گرافیکل حیثیت کو مکمل مسخ کر کے رکھ دیتے ہے یہی کچھ قابض ایران اور پاکستان نے برطانوی معاونت میں سرزمین بلوچ کے ساتھ کیا گیا . گولڈ سمتھ لائن اور ڈیورنڈ لائن کی توسط سے بلوچ قومی قوت کو اپنے لوٹ کھسوٹ اور عسکری مقاصد کیلئے تقسیم در تقسیم کا شکار کیا رائے عامہ کو گمراہ کرنے کیلئے میڈیا اور باقی سرکاری فوجی اور نیم فوجی اداروں کے ذریعے سے اس لوٹ ماری عمل کو جائز و برحق قرار دینے کی سر توڑ کوششیں کی گئیں، ایک حد تک ایران و پاکستان اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوئے مگر وقتاً فوقتاً ان غیر منصفانہ اقدامات کے خلاف معدود پیمانے پر بلوچ قومی مزاحمت کی شکل میں ریاستی پروپیگنڈوں کو زیادہ پنپنے نہیں دیا.
قابض برطانوی استعمار نے بھی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے ایران اور پاکستان جیسے نام نہاد جمہوری ملکوں کی بیساکیوں کا سہارا لے کر ایشیائی ممالک میں آج تک اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا.
چونکہ عالمی جنگ دوئم( 1945) کے بعد باقاعدہ طور پر قوموں پر حکمرانی ممکن نہیں تھا تو اسی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران اور پاکستان جیسے دہشت گرد اور مذہبی جنونیت کے شکار مہروں کو قومی استحصال کا کام سونپا گیا جو تاحال ایشیا سمیت مختلف خطوں میں جاری ہے.
مگر جن انسانی جرائم کا پاکستان اور ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں ارتکاب کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں انکی مثال کسی دوسرے خطے میں نہیں ملتی کیونکہ ان دونوں قابض ملکوں میں میڈیا سمیت ان کے زیر دست سول سوسائٹی بھی ریاستی حکومت کی ترجمانی کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں اور بلوچ نسل کشی میں مکمل طور پر خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں.
معمول کے مطابق بلوچ نوجوان ایرانی القدس اور دوسری سرکاری فورسز کے ہاتھوں بے دردی سے شہید کیئے جارہے ہیں مگر بدقسمتی سے ایرانی میڈیا دانستہ چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور بلوچ میڈیا کو مکمل سرکاری کریک ڈاؤن کا سامنا ہے یہی حال پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں بھی ہے بلوچ ماں بہنیں اور معصوم بچیاں کوئٹہ کی شدید سردی یخ بستہ ہواوں میں اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے سراپا احتجاج پر ہیں جن کی سننے والا کوئی بھی نہیں، اور جبری طور پر گمشدگیاں تاحال جاری ہیں.
محکوم بلوچ کو ایرانی اور پاکستانی تصرف میں مختلف قومی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے. اقوام متحدہ کی چارٹر کے مطابق قوموں کو اُنکی مادری زبان میں بنیادی تعلیم دینا ریاستی ذمہ داری میں شامل ہے مگر اس کے برخلاف ایران اور پاکستان میں بلوچی زبان کو فروغ دینے والے بھی ریاستی مظالم کا شکار ہیں شہید پروفیسر صباء دشتیاری صاحب ، شہید سر زاہد آسکانی،شہید ایڈوکیٹ علی شیر کرد سمیت کہی ایسے نامور کردار ہیں جنھیں پاکستانی و ایرانی ریاستیں اپنے وجود کیلئے انھیں خطرہ سمجھ کر شہید کر چکے ہیں. تعلیمی اداروں میں دوسری زبانوں کا غلبہ ہے جو سراسر ظلم و زیادتی ہے کیونکہ بلوچ بحیثیت مجموعی قوم اپنی الگ زبان اور ثقافت رکھتے ہے جو دوسری قوموں کے مد مقابل کھڑا ہوا ہے.
سوشل میڈیا کے ذریعئے ہر وقت دل خراش خبریں مقبوضہ بلوچستان سے متعلق آتی رہتی ہیں جہاں ریاستی درندگی کا ذکر کیا جاتا ہے مگر دوسری طرف اقوام متحدہ سمیت دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی مکمل طور پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے جیسے بلوچ عوام کو انسانیت کے داہرے سے ہی خارج کر دیا گیا ہے.
ایرانی انتظام میں رقبے کے لحاظ سے دوسرا بڑا صوبہ مغربی بلوچستان بنیادی انسانی زندگی کی سہولتوں سے یکسر محروم ہے معدنی وسائل سونا، چاندی، تیل، گیس، ڈیپ سی پورٹ، کاپر و دوسری قیمتی وسائل سے مالا مال مغربی بلوچستان میں بلوچ دو وقت کی سوکھی روٹی کی خاطر ترس رہے ہیں. نوجوان نسل جو قوموں کی تقدیر سنوارنے میں ریڑھ کے ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں چار پیسوں کی خاطر پُرخطر راستوں سے تیل کشی کرکے اپنی قیمتی جانیں ضائع کرنے پر مجبور ہیں. یہی تیل جو ان کی ہی سرزمین سے نکالی جا رہی ہے اسی پر بھی مقامی بلوچوں کو سرکاری اور فوجی افسران کو رشوت دینا پڑتا ہے.
ایرانی اور پاکستانی مظالم اب دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں مگر بحیثیت بلوچ قوم ہم یہ سوچھے کہ ان نازک حالات میں ہماری کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں؟
یقیناً اکیسویں صدی میں دنیاوی حالات تیزی سے بدل ہو رہے ہیں ٹیکنالوجی بھی انتہائی ترقی کی راہ پر محو سفر ہے سوشلزم بھی اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے اور سوشلزم کے دائی مانے جانے والے ممالک تیزی سے سامراجیت کی طرف قدم بڑھا دیئے ہیں مگر بدقسمتی کہیں یا لاشعوری کہ اب تک ہمارے سیاسی حلقوں میں سوشلزم کی باقیات نظر آ رہے ہیں بیشتر ریاستیں اپنے قومی مفادات کو لے کر اژدھے کی مانند حرکت میں ہیں، مگر ہم لوگ ہیں کہ ابھی تک سوشلزم سے جھپٹے ہوئے ہیں جس کے پیروکار خود ہی اس سے جان چھڑانے میں اپنی عافیت جانتے ہے ۔
ان حالات میں بحیثیت قوم ہم کس حد تک دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے ہیں کہ بلوچ قومی ریاست اور قومی مفادات عالمی قوتوں کے مفادات ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں لہذا عالمی دنیا کو فی الفور بلوچ قومی ریاست کی بحالی کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیے. بلوچ قوم کی خوش قسمتی کہ دنیا ان دو قابضین کا سیاہ کرتوت دیکھ چکے ہیں اور ان پر عالمی دنیا بھروسہ نہیں کر سکتے مگر مذکورہ دو ریاستیں اپنے لیے نئے اتحادیوں کا تلاش کر رہے ہیں تاکہ اپنی گرتی ہوئی معیشت اور اس خطے میں پائیدار شراکت دار کو مضبوط کر سکیں. پاکستان اور ایران چائنا کی بڑھتی ہوئی اثر و رسوخ کو دیکھ کر اس سے قریبی تعلقات استوار کر رہے ہیں جو کہ انڈیا، امریکہ سمیت یورپی ممالک کیلئے قابل قبول نہیں ہے اس لیے بلوچ کو بحیثیت قوم ان حالات میں انتہائی سنجیدہ فیصلے کرنے پڑینگے اور سیاسی تجزیہ نگاروں کا بھی یہی خیال ہے کہ اب کی بار عالمی سیاسی کھیل کا محور ایشیاء ہے جہاں عالمی طاقتیں اپنے ہاتھ ڈال چکے ہیں اسی لیے بلوچ کو بھی چاہیے کہ بحیثیت قوم اپنے وسیع تر قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے عالمی برادری کو یہ باور کرائیں کہ ان کے مفادات آزاد بلوچستان سے جڑے ہوئے ہیں، جس کی حصول کے بغیر کوئی بھی فریق اپنے قومی مفادات کو حاصل نہیں کر سکتا.

یہ بھی پڑھیں

فیچرز