تہران( ہمگام نیوز )ایران انٹرنیشنل ویب سائٹ کے مطابق حالیہ دنوں میں اطلاعات ملی ہیں کہ ایرانی پاسداران انقلاب نے متعدد صحافیوں کے گھروں پر حملہ کیا اور ان کے الیکٹرانک آلات کو ضبط کر لیا ہے۔ رپورٹس میں مزید کہا گیا کہ ان حکومت کے عناصر نے صحافیوں کو دھمکی دی ہے کہ اگر وہ احتجاج کے بارے میں مواد یا ذاتی رائے شائع کرتے ہیں، قیدیوں کے حالات یا ان کے اہل خانہ سے انٹرویو کرتے ہیں تو انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔
یاد رہے حکومت نے احتجاج شروع ہونے کے بعد مختلف شہروں میں درجنوں صحافیوں کو گرفتار اور درجنوں دیگر کو طلب کیا ہے۔ جرنلسٹس سنڈیکیٹ نے تقریباً 70 صحافیوں کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے جن میں سے نصف کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔
ایرانی عدلیہ نے متعدد صحافیوں پر قومی سلامتی کے خلاف جرم اور حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ سرگرمیوں کے ارتکاب کے مقصد سے اسمبلی اور ملی بھگت کا الزام عائد کیا۔
خیال رہے کچھ اخبارات نے مہسا امینی کے بارے میں اور عوامی احتجاج میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں شائع ہونے والے تمام مواد کی مکمل ذمہ داری کا اعلان کیا۔
“ایران انٹرنیشنل” کے مطابق “ہم میھن ” اخبار کی خاتون صحافیہ الھہ محمدی نے 18 دسمبر کو اپنے شوہر کو ایک مختصر فون کال کی، جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ اسے اور “شرق” اخبار کی صحافی نیلوفر حمیدی کو قرچک جیل منتقل کر دیا گیا ہے ۔
ایرانی عدلیہ کے ترجمان مسعود ستایشی نے اعلان کیا ہے کہ دو صحافیوں نیلوفر اور الھہ محمدی پر جو الزامات عائد کئے گئے ہیں ان کے مطابق ان دونوں نے قومی سلامتی کے خلاف جرم کا ارتکاب کیا اور یہ دونوں اسمبلی کی ملی بھگت سے حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ سرگرمی میں ملوث ہوئی ہیں۔
ان دونوں صحافیوں کی گرفتاری کے بعد پاسداران انقلاب کی انٹیلی جنس تنظیم اور ایرانی وزارت انٹیلی جنس نے ایک مشترکہ بیان شائع کیا جس میں ان دونوں صحافیوں پر الزام لگایا گیا کہ وہ نوجوان خاتون مہسا امینی کے قتل کی خبر کی کوریج کے دوران امریکہ کے لیے جاسوسی کر رہی ہیں۔
نیلوفر حمیدی، جس نے کسرہ ہسپتال میں مہسا امینی خاندان کی موجودگی کی تصاویر شائع کی تھیں، کو 22 ستمبر کو تہران میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
’’شرق‘‘ اور ’’ہم میھن‘‘ دونوں اخباروں نے ان دونوں صحافیات کی جانب سے مہسا امینی سے متعلق شائع کئے جانے والے مواد کی ذمہ داری لینے کا اعلان کر رکھا ہے۔