ایران کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کیلئے تیار ہے ،روحانی
ایران کے خلاف زمینی فوج استعمال نہیں ہوگی، ٹرمپ
امریکی صدر نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ جنگ بہت طویل نہیں ہوگی اس میں زمینی افواج استعمال نہیں ہونگے۔ فوکس بزنس کو انٹرویو دیتے ہوئے اس سوال پر کیا امریکہ ایران کے ساتھ جنگ کرنے جا رہا ہے ؟ تو امریکی صدر نے کہا کہ ہمیں امید ہے جنگ نہیں ہوگی لیکن اگر کچھ ہوا تو ہم بہت مضبوط پوزیشن میں ہیں، میں آپ کو بتا رہا ہوں یہ ایک لمبی جنگ نہیں ہوگی، زمین پر بوٹیں پڑینگے یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ہم ایک ملین سپاہی بیج رہے ہیں میں بس اتنا کہہ رہا ہوں کہ یہ ایک لمبی جنگ نہیں ہوگی۔ ہم انکے ساتھ اچھا سلوک کر رہے ہیں، انہوں نے ہمارے ایک جہاز کو مار گرایا لیکن بدلیں میں ہم نے ان کے کئی لوگوں کو نہیں مارا۔ مجھے ایرانی لوگ پسند ہیں وہ اچھے لوگ ہیں وہ انسان ہیں میں نے انکے ۱۵۰ لوگوں کو نہیں مارا۔
جبکہ دوسری طرف ایرانی رہنما کہہ رہے ہیں کہ ایران امریکہ کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا لیکن کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہے، ایرانی صدر حسن روحانی نے جمعرات کے دن یہ بات اپنے ہم منصب فرانسیسی صدر امنول ماکرون کے ساتھ ٹیلیفون پر بات چیت کے دوران کہی ۔ روحانی نے کہا اگر امریکنوں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ ایران کے فضائی اور بحری حدود پر حملہ کرینگے تو ان کو شکست فاش دینے کیلئے ایرانی فورسز ہمہ جہت تیار کھڑے ہیں۔ روحانی کا کہنا تھا کہ ایران خطے میں کسی تصادم کو بڑھاوا دینے میں دلچسپی نہیں رکھتا بشمول امریکہ کے ساتھ جنگ کے عزائم بھی نہیں رکھتا۔
انہوں نے نیوکلیئر ڈیل کے حوالے کہا کہ ایران اس انتظار میں ہے کہ یورپین یونین اپنے وعدے کا پاس داری کرتے ہوئے ایران کی معاشی استحکام کیلئے بینکنگ کے سیکٹر میں ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد دینگے جس سے تیل کی فروخت میں مدد ملے، لیکن ابھی تک یورپی یونین کا کوئی بھی وعدا وفا نہیں ہوا ہیں ۔
اگر ایران کو نیوکلیئر ڈیل سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا تو وہ جوہری معاہدے کے آرٹیکل ۲۶ اور ۳۶ کے تحت اپنی زمہ داریوں سے پیچھے ہٹے گا۔
ایرانی صدر نے زور دیکر کہا کہ جو معاہدہ ہوا ہے اب اس بارے مزید بات چیت کیلئے تیار نہیں ہے اس معاہدے کی خلاف ورزی اور ایران پر مزید دباؤ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے بقول ان کے امریکی مسائل حل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ فرانسی صدر ماکرون تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ علاقے میں مزید کشیدگیاں پیدا نہ کریں۔ اس نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں مزید کشیدگیاں بڑھ رہے ہیں، یہ کشیدگی کسی بھی طرح کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں ہوگا۔۔
اس تمام صورتحال سے یہی نتیجہ اخز جاسکتا ہے کہ ایران اور امریکہ متواتر کشیدگی سے تصادم کی طرف مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ اس تمام سیاسی و عسکری منظر نامے کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بلوچ عوام اس تصادم سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا کیوںکہ بلوچستان کا ایک آدھا حصہ ایران کے قبضے میں ہے۔ ایک مقبوضہ قوم کی حیثیت سے ہمیں اپنی قومی قوت کو ایک متبادل ریاست کی طرح ایک مرکز میں جمع کرتے ہوئے ان قوتوں کے ساتھ اپنی قومی حیثیت کو منوانا چاہیے جو اس وقت ایرانی دھشت گردی سے بیزار ہوچکے ہیں۔ اور بلوچوں سے امید و توقع رکھتے ہیں کہ وہ ایک متبادل کے طور پر قوم کی حیثیت سے اٹھے کھڑے ہو، لیکن افسوس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے، ہم اتحاد کی بجائے منتشر کی جانب مسلسل گامزن ہیں۔ لیکن اب بھی وقت ہے کہ بلوچ قوم کے تمام آزادی پسند قوتیں آپس کے پالیسی اختلافات کو دور کرکے قومی آزادی کے مشترکہ ومتفقہ ایجنڈے پر متحد ہو ۔