ہمگام نیوز ڈیسک :امریکہ اور اسرائیل ہائی الرٹ پر ہیں اور شام میں ایرانی سفارت خانے پر اسرائیلی بمباری کے جواب میں خطے میں اسرائیلی یا امریکی اثاثوں کو نشانہ بنانے والے ممکنہ ایرانی حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔

شام میں اپنے سفارت خانے پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں ایران کو ایک مخمصے کا سامنا ہے۔وہ جنگ کا دائرہ وسیع کرنے سے بچتے ہوئے اسرائیل سے انتقام لینا چاہتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تہران نہیں چاہتا کہ جنگ کا دائرہ پھیلے۔

قابض ایران نے کہا ہے کہ اس نے امریکہ کو پیغام دیا ہے کہ وہ ایک طرف ہو جائے۔ وہ ملک شام میں اپنے قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کا جواب دینے کے لیے تیار ہے، جب کہ حزب اللہ نے اسرائیل کو جنگ کے لیے تیار ہونے سے خبردار کیا ہے۔

واشنگٹن کو لکھے گئے خط میں قابض ایران نے امریکہ کو خبردار کیا کہ وہ نیتن یاہو کے جال میں نہ پھنسے، ایرانی صدر کے دفتر برائے سیاسی امور کے نائب سربراہ محمد جمشیدی نے ’ایکس‘ ویب سائٹ پر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ’امریکہ کو ایک طرف کھڑا ہونا چاہئے تاکہ مارا نہ جائے”۔

جمعہ کو نیویارک ٹائمز نے ایرانی حکام کے حوالے سے کہا کہ ایران نے اسرائیل پر براہ راست حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا مقصد ڈیٹرنس پیدا کرنا ہے۔

ایرانی اخبار “خراسان” نے اسرائیل کے جواب کے معیار اور سطح پر بات کی۔ اس نے “سیرین نیوز چینل” کے حوالے سے کہا کہ یہ حملہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ہونا چاہیے، بہت زیادہ جانی و مالی نقصان کا باعث ہونا چاہیے، سب کے سامنے ہونا چاہیے اور سب تک اس کی خبر پہنچنی چاہیے۔اس نے مزید کہا کہ اس کا مقصد “سب کو یہ بتانا ہے کہ اس اسرائیل کی “جنگی” طاقت صرف غزہ کی پٹی میں قتل کی کارروائیوں کے دائرہ کار میں ہے اور اب اس کی کوئی طاقت نہیں ہے”۔

انہوں نے مزید کہا کہ ردعمل “اس طرح سے ہونا چاہیئے کہ اسرائیل کو علم ہو کہ اگر وہ کچھ نیا کرنا چاہتا ہے، تو اس کی قیمت بہت زیادہ ہوگی”۔

چینل نے ٹیلی گرام پر لکھا کہ “اس سلسلے میں ٹھوس تجویز یہ ہے کہ اسرائیل سے تعلق رکھنے والے 22 پاور ٹرانسمیشن اسٹیشنوں کے علاوہ تین پاور اسٹیشنوں مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے۔ انہیں مکمل طور پرتباہ کیا جائےکہ وہ دو سال تک انہیں دوبارہ تعمیر یا تبدیل نہیں کر سکے۔ تقریباً کوئی بھی پڑوسی ملک اس نظام کی توانائی کی ضروریات فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یہ حملہ اسرائیل پر بہت زیادہ اور طویل مدتی اثرات مرتب کرے گا اور مقبوضہ فلسطین سے آباد کاروں کا بڑے پیمانے پر انخلاء کا بھی سبب بنے گا۔

پیر کا حملہ جس میں دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے احاطے میں دو ایرانی کمانڈروں اور پانچ فوجی مشیروں کو ہلاک کیا گیا اس وقت ہوا جب اسرائیل نے ایران اور اس کے اتحادی مسلح گروہوں کے خلاف طویل عرصے سے جاری مہم کو تیز کر دیا ہے۔

تہران کے پاس محدود آپشنز ہیں، کیونکہ وہ اپنے اتحادی گروپوں کو امریکی افواج کے خلاف آپریشن شروع کرنے کے لیے یا انھیں اسرائیل پر براہ راست حملے کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے یا اپنے جوہری پروگرام کو تیز کر سکتا ہے، جسے امریکہ اور اس کے اتحادی طویل عرصے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

امریکی حکام نے کہا کہ وہ صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ آیا ایران کے ساتھ اتحادی گروپ عراق اور شام میں تعینات امریکی افواج پر حملہ کریں گے، جیسا کہ ماضی میں ہوا ہے۔

اس طرح کے ایرانی حملے فروری میں اس وقت رک گئے تھے جب واشنگٹن نے اردن میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے جواب میں شام اور عراق میں ایرانی پاسداران انقلاب اور اس کی حمایت یافتہ دھڑوں سے منسلک اہداف پر درجنوں فضائی حملے کیے تھے۔

امریکی حکام نے کہا کہ انہیں ابھی تک انٹیلی جنس نہیں ملی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پیر کے حملے کے بعد ایران کے ساتھ اتحادی گروپ امریکی افواج پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس معاملے پر گہری نظر رکھنے والے ایک ذریعے نے رائیٹرز کو بتایا کہ ایران کو ایک بار پھر اس مسئلے کا سامنا ہے کہ وہ اسرائیل کو اس طرح کے مزید حملے کرنے سے روکنے کے لیے جواب دینا چاہتا ہے اور ساتھ ہی وہ ایک مکمل جنگ سے بھی بچنا چاہتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ “اگر وہ اس معاملے میں جواب نہیں دیتے ہیں تو یہ واقعی اس بات کی علامت ہو گی کہ ان کا دفاع کاغذی شیر ہے۔ ایران بیرون ملک اسرائیل کے سفارت خانوں یا یہودی تنصیبات پر حملہ کر سکتا ہے۔

ایک امریکی اہلکار نے کہا کہ اسرائیلی حملے کے حجم کو دیکھتے ہوئے ایران امریکی افواج پر حملہ کرنے کے بجائے اسرائیلی مفادات پر حملہ کرکے جواب دینے پر مجبور ہوسکتا ہے۔

ایک امریکی تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشنز کے مشرق وسطیٰ کے ماہر ایلیٹ ابرامز کہتے ہیں کہ ’’ان[ایرانیوں] کے پاس کے پاس جواب دینے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔ مثال کے طور پر اسرائیلی سفارت خانے کو اڑانے کی کوشش کرنا۔‘‘

ایران بھی اپنے جوہری پروگرام کی ترقی کو تیز کر کے جواب دے سکتا ہے، جس پر اس نے کام تیز کر دیا ہے۔ امریکہ 2018ء میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں 2015 میں طے پانے والے ایرانی جوہری معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا جس کے بعد امریکہ نے ایران پر دوبارہ پابندیاں عاید کیں اور ایران نے جوہری سرگرمیاں تیز کردی تھیں۔