بلوچ قومی آزادی کی اس حالیہ تحریک کے دوران قابض پاکستان و ایران کے ریاستی فورسز نے دونوں اطراف میں اب تک ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کو انکی سیاسی وابستگی اور بلوچستان میں جاری ریاستی بربریت وانسانی حقوق خلاف ورزیو ں پر آواز اٹھانے کے پاداش میں جبری گمشدگی کا نشانہ بنایاہے۔ ان میں ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جن کا فردی طور پر کسی سیاسی سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں لیکن انکی اہلخانہ میں کوئی شخص بلوچ راجی آجوئی کی تحریک میں شامل ہے یا پھر بلوچ راجی آجوئی جنز کا ایک بہی خواہ ہے تو ایسے افراد کو اجتماعی سزا کی بنیاد پر ایران و پاکستان کے ریاستوں نے جبری لاپتہ کرکے ایک دوسرے کے حوالے کئے ہیں تاکہ انکے اہلخانہ میں موجود ان لوگوں پر پریشر کو بڑھایا جاسکے جو کہ بلوچ راجی آجوئی تحریک کا باقاعدہ سرگرم رکن یا بہی خواہ ہیں۔
دنیا کہ مختلف تحاریک میں ایسے اجتماعی سزا اور پریشر ٹکٹکس کا استعمال کیا جاتا رہا ہے اور بلوچ قومی آزادی کی ابھرتی اور زور پکڑتی اس تحریک کو کچلنے کے لئے بھی ایران و پاکستان کی قبضہ گیر ریاستیں اس اجتماعی سزا کی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے آرہے ہیں۔
ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے علاقے در گس میں چھبیس اپریل دوہزار بیس کو ایرانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ کئیے گئے سترہ بلوچوں میں عبدالجلیل ولد حاجی حبیب بھی شامل تھے۔ عبدالجلیل بنیادی طور پر پاکستانی زیر قبضہ بلوچستان کے علاقے پھل آباد کے رہائشی ہیں جو اپنے ایک اور ساتھی کے ساتھ ابھی تک لاپتہ ہیں، اہلخانہ کے مطابق لاپتہ عبدالجلیل اور انکے دیگر ساتھیوں کو ایرانی قابض فورسز نے اغوا کرکے غائب کیا ازاں بعد ان میں سے بیشتر افراد کو چھوڑ دیا گیا لیکن عبدالجلیل اپنے ایک ساتھی کے ساتھ ابھی تک غائب ہیں۔
اہلخانہ کے مطابق ہم اسی انتظار میں رہے کہ عبدالجلیل کو بھی دوسرے مغویوں کی طرح چھوڑ دیا جائے گا لیکن ایرانی حکومتی و انتظامی اہلکاروں کے مطابق عبدالجلیل انکے پاس نہیں بلکہ ان کوپاکستان کے حوالے کیا گیا ہے جو کہ ابھی تک بازیاب نہیں ہوئے۔
اہلخانہ نے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ عبدالجلیل سمیت تمام لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے جو انکی بنیادی انسانی حق ہے۔
اسی طرح بزرگ بلوچ آزادی پسند بلوچ قوم پرست استاد واحد کمبر کو ایران سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا جسے بعدازاں پاکستان کے حوالے کیا گیا ہے جس کی باقاعدہ تصدیق اس کی فیملی کرچکی ہے۔
فیملی کے مطابق استاد واحد کمبر کو 19 جولائی کو ایران کے علاقے کرمان سے اغواء کیا گیا۔
ان کے خاندان اور بلوچ آزادی پسند تنظیموں کا الزام ہے کہ انہیں پاکستانی ایجنٹس کے ذریعے اغواء کرکے پاکستان منتقل کیا گیا اور اب وہ پاکستانی فورسز کی حراست میں ہیں۔
قابض ایران و پاکستان کی بلوچ قوم کے خلاف اجتماعی سزا اور مغویوں کی ایک دوسرے کی حوالگی سے پتہ چلتا ہے کہ ایران و پاکستان بلوچ قوم کے خلاف ماضی میں ایک رہے ہیں اور اب بھی ایک صفحہ پرہیں ۔وہ ایک دوسرے کے زیر قبضہ بلوچستان کے سرزمین پر بمبارمنٹ بھی کرتے ہیں اور خفیہ آپریشنز کے ذریعے بلوچ فرزندوں کو ایک دوسرے کی نشاندہی پر اغوا کرکے ایک دوسرے کے حوالے بھی کرتے ہیں۔
ایرانی و پاکستانی قابضین کسی بھی صورت نہیں چاہتے کہ بلوچ قوم اپنی سرزمین کی وت واجھی اور حق حاکمیت کی حصول کے لئیے اپنی جد و جہد میں کامیاب ہوں ۔لہذا وہ سیاسی سرگرمیوں کی بنیاد پر یا اجتماعی سزا کے طور پر ہمیشہ بلوچ قوم کے فرزندان وطن کو اغوا کرتے اور انکی مسخ شدہ لاشیں پھینک دیتے ہیں یا پھر ان کو سالہا سال عقوبت خانوں میں تشدد کے سائے میں رکھتے ہوئے اہلخانہ کو سالوں کی لمبی ذہنی اذیت سے دوچار کرتے ہیں جو دونوں قابض ریاستوں کی بلوچ قوم کے خلاف اجتماعی سزا کا ایک آزمودہ طریقہ کار ہے۔