برسلز (ھمگام انٹرنیشنل) یورپی وزراء نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں آٹھ ایرانیوں اور تہران حکومت کے طاقتور ترین اداروں میں سے ایک کو یورپی یونین کی پابندیوں کی فہرست میں شامل کرنے پراتفاق کیا ہے۔

ان ایرانی شخصیات بشمول علماء، ججوں اور ایک براڈکاسٹر پرالزام ہے کہ انھوں نے حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف سکیورٹی فورسزکے وحشیانہ کریک ڈاؤن میں قائدانہ کردارادا کیا تھا۔

یورپی یونین کا کہنا ہے کہ وہ خاص طورپرعدلیہ کے ان ارکان پر پابندیاں عاید کررہی ہے جو غیر منصفانہ مقدمات میں سزائے موت دینے اور مبیّنہ مجرموں پر تشدد کرنے کے ذمے دارہیں۔

کہاجاتا ہے کہ سرکاری ادارے سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب نے’’لڑکیوں اورخواتین کی آزادی کو کمزورکرنے اوراقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والے متعدد منصوبوں کوفروغ دیا ہے‘‘۔

برسلزکی تازہ فہرست کے بعد یورپی یونین کی پابندیوں کی زد میں آنے والے افراد، کمپنیوں اور ایجنسیوں کی تعداد 150 تک پہنچ گئی ہے۔یورپی ممالک میں ان کے اثاثے منجمد کرلیے گئے ہیں اوران پرسفری پابندیاں عاید کی گئی ہیں۔

یورپی یونین نے یہ فیصلہ اقوام متحدہ کے ماہرجاوید رحمٰن کی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پیش کردہ رپورٹ کے بعد کیا ہے۔انھوں نے بتایا کہ مظاہروں کے آغاز کے بعد سے چھے ماہ کے دوران میں ایران کے اقدامات انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آسکتے ہیں۔

ایران میں یہ مظاہرے گذشتہ سال ستمبرمیں 22 سالہ کردایرانی خاتون مہساامینی کی حراست میں موت کے بعد شروع ہوئے تھے۔ان پرمذہبی حکام نے ایران میں خواتین کے ضابطۂ لباس کی خلاف ورزی کا الزام عاید کیا تھا۔

نئی پابندیوں کا فیصلہ برسلزمیں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ اور دفاع کے اجلاس میں کیا گیاہے۔اس موقع پرہزاروں ایرانی جلاوطنوں نے تہران حکومت کے خلاف اورمظاہرین کی حمایت میں احتجاج کیا ہے۔

ان مظاہرین میں زیادہ ترجلاوطن حزب اختلاف کے گروپ قومی مزاحمتی کونسل برائے ایران کے حامی تھے۔انھوں نے مطالبہ کیاکہ پاسداران انقلاب کو دہشت گرد گروپ کے طور پر بلیک لسٹ کیا جائے۔

یورپی یونین کے کچھ دارالحکومت بھی اس اقدام پر زوردے رہے ہیں۔وہ سپاہِ پاسداران انقلاب ایران کے نیم فوجی مسلح ونگ پرپابندیاں عاید کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں جو ایرانی معیشت میں گہرے طورپر سرایت کرچکا ہے۔

تاہم یورپی حکام کاکہنا ہے کہ مخصوص حملوں میں ملوث یونٹوں یا کمانڈروں کے مقابلے میں پورے گروپ کو اس طرح مکمل طورپردہشت گرد نامزد کرنے کی قانونی بنیاد کو ظاہرکرنا پیچیدہ ثابت ہو رہا ہے۔