ھمگام کالم
آرچن بلوچ
بلوچ قوم کی محکومیت کی بنیادی سبب مرکز گریزی کا رجحان ہے، اس منفی centrifugal tendency رجحان نے بلوچ قوم کی اجتماعی قومی قوت کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ دنیا میں بلوچ قوم بمع اپنی آبادی، جغرافیائی ساخت اور محل وقوع کے اعتبار سے ایک بہت بڑی قوم ہے اور اس کی اپنی ایک بڑی قومی طاقت بھی ہے اور اگر اس کی آدھی قوت بھی تمرکز ہوجائے تو تقدیر بدل جائے۔
مگر بدقسمتی سے عدم مرکزیت کا رجحان بلوچ سماج کے ہر پرت میں موجود ہے، چاہے بوسیدہ قبائلی سطح ہو یا متوسطوں کی خود ساختہ غیرقبائلی سیاسی پارٹیاں ہوں، یہ منفی رجحان تحریک کی قومی قوتوں کو تمرکز ہونے نہیں دے رہا۔ عدم مرکزیت کو پاٹنے کیلئے موثر رابطوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر یہاں آپس میں رابطہ کرنے کی ہر مثبت پیش قدمی یا پہل کو ہمیشہ کمزوری خیال کیا جاتا ہے۔ مجھ جیسا ایک ادنا آدمی بھی اس منفی رجحان کا شکارہے۔
مگر، اگر ہم میں سے کوئی شخص زھنی اور شعوری طور پر مزکورہ دونوں منفی رجحانات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے قومی تحریک کے شراکت داروں میں ایک سطح کی ربط پیدا کرنے کی کوشش کرے تو بھی اسے یہ تحفط ضرور ہوگا کہ مبادا اس کی کوششیں بھتری کے بجائے مزید بگاڑ پیدا نہ کردیں۔ مجھ جیسا ایک ادنا آدمی کی بات کو ایک ادنا آدمی بھی سسنے کو تیار نہیں جب تک کہ کوئی ایک بڑا گن گرجتا نہ ہو۔ دوسری طرف دشمن کا پیدا کردہ گھٹن زدہ سیاسی پابندیوں نے حالات کو مزید ابتر کردیا ہے درمیاں میں ایک وسیع کمیونکیشن کی گیپ پیدا کردی گئی ہے۔
قومی آزادی کی تحریک میں تمام شراکت داروں کی موجودہ انفرادی خون اور پسینے کی تمام کاوشیں اس حد تک آ کر rock-bottom تک پہنچ چکے ہیں کہ جہاں ان تمام قوتوں کی انفرادی جدوجھد نے تحریک کو فقط low level کی سطح تک برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ بلوچ مزاحمت اور دشمن کی طاقت کے درمیان کوئی equation نہیں۔ یہاں سے آگے نکلنے کے کامیاب راستے کون سے ہیں؟
اس غیرمتوازن صورتحال کو تحریک کے حق میں بگاڑنے کیلئے وہ کونسے ممکنہ تشکیلات ہوسکتے ہیں جن سے ہم اپنے قوم کے قیمتی وقت اور انسانی وسائل کی نقصانات کو کم کرتے ہوئے کامیابی کی طرف بڑھیں۔ optimal result یعنی مطلوبہ نتیجہ تک پہنچنے کیلئے تحریک آزادی کے تمام شراکت دار قوتوں کی سیاسی اور عسکری حصوں کا متبادل ریاستی بنیادوں پر ایک نئی مگر مربوط صف بندی کرنی ہوگی جہاں قابلیت اور زھانت کے بنیاد پر قائم تحریک کے تمام لوازمات کی حصول کو ممکن بنائی جا سکے۔ اب optimal result کیلئے یقینا optimal scenario پیدا کرنے ہونگے، تو اس کیلئے صف بندیوں کی ایک optimal formationکی ضرورت پر اتفاق کرنا ہوگا۔
جداگانہ طور پر تحریک میں شامل شراکت داروں میں سے کوئی بھی شریک اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ ہی اکیلا تحریک کو منزل تک پہنچائے۔ اگر اس حقیقت سے شراکت داروں کو یقین ہے تو قوم کی قیمتی وقت اور انسانی وسائل کو مزید ضائع کئے بغیر ہمیں مرکز گریزیت اور پہل کرنے کی مثبت اقدامات کو کمزوری سے تعبیر کرنے جیسے منفی رویوں کو ترک کرنا ہوگا۔
ہمارے خطے کی جیوپالٹکس میں، یعنی اس خطے کی اندرونی اور بیرونی سیاست میں بلوچ کو بحیثیت ایک فریق تسلیم نہیں کیا گیا ہے، اس کی وجہ بھی ہماری کمزور وکٹوں پر کھیلنا ہے، مگر پھر بھی یہ طے ہوچکا ہے کہ ہمارے ملک پر قابض دشمن قوتیں خیران کن حد تک کمزور ہوچکے ہیں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانا تحریک کی قومی سیاسی قیادت کی زمہ واری ہے۔ مگر مجموعی تحریک کا کوئی اجتماعی سیاسی قیادت نہیں ہے جو دنیا کے سامنے ایک قومی منڈیٹ کے ساتھ تحریک کا چہرہ بنے! ہمیں اپنے دشمن سے ایک سبق سیکھنا چاہیے، جب بھی ان پر مصیبتیں آن پڑتی ہیں تو وہ آل پارٹی کانفرنس منعقد کرتے ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں سے توٹ پھوٹ کی ڈر سے ہم متحد نہ ہوئے تو منتشر رہے، انتشار کی حالت میں بھی مزید بھکرتے گئے، تو کوئی بھتری تو نہیں آئی نا! حرف آخر یہی عرض ہے کہ قومی نجات کی خاطر تحریک کے مین شراکت دار پارٹیاں فری بلوچستان مومنٹ، بلوچ نیشنل مومنت اور بلوچ ریپبلکن پارٹی ایک آل پارٹیز قومی کانفرنس منعقد کرنے کی ضرورت پر ضرور سوچھیں جوکہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔