واشنگٹن (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن بدھ کی دوپہر ملک کے 46 ویں صدر کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھا رہے ہیں۔ دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں سیکیورٹی خطرات کے پیشِ نظر ہائی الرٹ ہے۔
امریکی صدر کی تقریبِ حلف برداری کے موقع پر کیپٹل کمپلیکس اور واشنگٹن مانیومنٹ کے درمیان نیشنل مال عموماً لوگوں سے بھرا ہوتا ہے۔ لیکن اس بار ایک اندازے کے مطابق ایک ہزار مہمانوں کو ہی تقریب میں مدعو کیا گیا ہے۔
تقریب کے دعوت نامے حاصل کرنے والوں میں بیشتر کانگریس ارکان اور دیگر نمایاں شخصیات شامل ہیں۔
تقریب میں بائیڈن کی اہلیہ جل بائیڈن، نائب صدر کاملا ہیرس کے شوہر ڈگلس ایمہوف، سابق صدر براک اوباما، ان کی اہلیہ مشل اوباما، سابق صدر جارج ڈبلیو بش اور ان کی اہلیہ لورا بش، سابق صدر بل کلنٹن اور ان کی اہلیہ و سابق وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن شرکت کریں گے۔
جو بائیڈن امریکی وقت کے مطابق دن 12 بجے اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے اور اُن سے چیف جسٹس جان رابرٹ حلف لیں گے۔ بعدازاں وہ صدارتی دستاویزات پر دستخط اور خطاب بھی کریں گے۔
بائیڈن کی حلف برداری میں دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ اپنی خاندانی بائبل پر ہاتھ رکھ کر حلف لیں گے جو 1893 سے اُن کے خاندان کے پاس ہے۔
اسی طرح نائب صدر کاملا ہیرس بھی سپریم کورٹ کی ایسوسی ایٹ جسٹس سونیا سوٹمائر سے حلف لیں گی۔
ہیرس دو بائبلز پر حلف لیں گی جن میں ایک بائبل وہ ہے جس پر سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس تھرگڈ مارشل نے حلف لیا تھا جب کہ دوسری بائبل مرحوم ریگینا شیلٹن کی بائبل ہے جنہیں وہ اپنی دوسری ماں قرار دیتی ہیں۔
بائیڈن کے حلف لینے سے قبل گلوکارہ لیڈی گاگا قومی ترانہ پڑھیں گی۔ بعدازاں گلوکارہ جینیفر لوپیز اور گلوکار گارتھ بروکس میوزیکل پرفارمنس پیش کریں گے۔
تقریب کے اختتام پر اپسکوپل چرچ کے پادری سلویسٹر بیمن دعا کرائیں گے جس کے بعد بائیڈن اور ہیرس سبکدوش ہونے والے نائب صدر مائیک پینس اور ان کی اہلیہ کیرن پینس کو رخصت کریں گے۔
بائیڈن اور ہیرس خصوصی گاڑی میں بیٹھ کر فوجیوں کی یادگار پر جائیں گے۔ بعدازاں وائٹ ہاؤس پہنچنے پر انہیں صدارتی اسکواڈ دیا جائے گا۔
امریکہ کی تمام 56 ریاستوں اور زیرِ انتظام علاقوں میں پریڈ کا انعقاد کیا جائے گا جس میں امریکہ کی نمایاں شخصیات کی کارناموں کو سراہنے کے علاوہ امریکی ثقافت کو اجاگر کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی بائیڈن کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ البتہ انہوں نے اپنے الوداعی ویڈیو پیغام میں نئی انتظامیہ کے لیے ‘نیک خواہشات’ کا اظہار کیا ہے۔
تقریبِ حلف برداری کی سیکیورٹی کے لیے امریکی ریزرو فوج نیشنل گارڈ کے 25 ہزار اہلکار تعینات ہیں۔ اور فوجی حکام نے منگل اپنے ایک اعلان میں 12 اہلکاروں کو ڈیوٹی سے ہٹانے کی تصدیق کی ہے۔
سیکیورٹی خدشات کی بنا پر نیشنل گارڈ کے 12 اہلکاروں کو ایسے موقع پر ڈیوٹی سے ہٹایا گیا ہے جب واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل گارڈز کے علاوہ وفاقی ایجنٹس ہائی الرٹ پر ہیں اور دارالحکومت فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہو چکا ہے۔
پینٹاگون چیف کے ترجمان جوناتھن ہفمین نے منگل کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 12 اہلکاروں میں سے دس کو ان کے ‘سوالیہ رویے’ جب کہ دیگر دو کو ‘نامناسب بیان بازی’ کی بنا پر ہٹایا گیا ہے۔
ترجمان نے ڈیوٹی سے ہٹائے گئے نیشنل گارڈ کے اہلکاروں کے رویے اور نامناسب بیان بازی کی وضاحت نہیں کی۔
یاد رہے کہ نیشنل گارڈ امریکی فوج کے ریزرور اہلکار ہوتے ہیں جنہیں ہنگامی حالت یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت کے لیے طلب کیا جاتا ہے۔
چھ جنوری کو کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے حملے کے بعد امریکی سیکیورٹی اداروں نے جو بائیڈن کی تقریبِ حلف برداری کے موقع پر بدامنی کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔
امریکی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) نے واشنگٹن ڈی سی اور تمام 50 ریاستوں میں صدر ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے مسلح مظاہروں کے خدشے کا اظہار کیا تھا جس کے بعد دارالحکومت میں سخت سیکیورٹی اقدامات کیے گئے۔
گزشتہ چند روز کے دوران متعدد سابق اور موجودہ اہلکاروں پر کیپٹل ہل حملے سے تعلق کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اور اسی وجہ سے سیکیورٹی اداروں کے اندر سے ہی ممکنہ حملے سے متعلق تشویش پیدا ہوئی ہے۔
آرمی جنرل ڈینئل ہوکنسن نے، جو نیشنل گارڈ بیورو کے سربراہ بھی ہیں، صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن ڈی سی میں چند اہلکاروں کے ہٹانے پر تشویش نہیں ہے کیوں کہ 25 ہزار اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے اور اُن میں سے صرف 12 کو ان کی ڈیوٹی سے ہٹانے کے لیے کہا گیا ہے۔
جنرل ہوکنسن نے اخبار ‘واشنگٹن پوسٹ’ کی اُس خبر کی تصدیق بھی کی جس میں کہا گیا تھا کہ ایف بی آئی نے حالیہ ہفتے کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کو متنبہ کیا تھا کہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل گارڈ کے اہلکاروں کی حیثیت سے وہاں بدامنی پھیلانے پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔
یاد رہے کہ چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر حملے اور پانچ افراد کی ہلاکت کے بعد سے کیپٹل کو عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے جہاں کیپٹل کے اطراف خاردار تاریں بچھائی گئی ہیں اور آہنی دیواریں رکھ کر مختلف سڑکوں کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے متعدد بلاکس بند ہیں اور نیشنل گارڈ کے ہزاروں اہلکار مختلف سڑکوں پر گشت بھی کر رہے ہیں۔