ہمگام نیوز۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزادکانسٹیٹیوشنل بلاک نے اپنے اخباری بیان میں بانک کریمہ کے نام سے متنازعہ مرکزی کمیٹی کے اجلاس اور اس میںاختیار کیئے گئے موقف کو بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بانک کریمہ اور تنظیم کے آئین و اداروں کو یرغمال بنانے والا گروہ اپنی روایتی و منفی سیاست کے زریعے قومی اداروں کو تباہی سے دوچار کرنے کے عمل کو فوراََ بند کر دے ۔ بانک کریمہ اور ان کا گروہ تنظیم کے حقیقی قیادت ہونیکا جواز نہیں رکھتے بی ایس او آزاد کو اپنی مذموم زاتی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی ان کی کوشیں جلد اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی ۔ بیان میں کہا گیا کہ بانک کریمہ نے اپنے متنازعہ مرکزی کمیٹی کے نام نہاد اجلاس میں بی ایس او آزاد کے ورکروں اور قومی تحریک سے وابستہ عوام کے ساتھ سنگین مذاق کرتے ہوئے بڑی ہی چالاکی سے گزشتہ تین سالوں سے جاری اپنی منفی سیاست اور اس کے نتیجے میں قومی اداروں میں پھیلی تباہی کا بوجھ اپنے سر سے اتارنے کی کوشش کی ہے جو کہ حقائق سے کوسوں دور ہے اور کبھی بھی کامیاب نہ ہو سکے گی ۔جس طرح بی ایس او کو نقصان پہنچانے والے گروہ اس سے قبل احتساب سے نہ بچ پائے ہیں اسی طرح بانک کریمہ اور ان کا گروہ بھی جلد بلوچ قومی تاریخ کے کٹہرے میں احتساب کیلئے کھڑے ہونگے۔ جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ بانک کریمہ کا بیان کردہ قصہ ان تمام کوششوں کو براہ راست سبوتاژ کر رہا ہے جو کہ آج تک کانسٹیٹوشنل بلاک اور تنظیم کے ممبروں وہمدردوں نے تنظیم کو منفی سیاست اور نقصان سے بچانے کیلئے اٹھائے تھے۔ بی ایس او آزاد کانسٹیٹیوشنل بلاک نے گزشتہ نو مہینوں سے اپنی تمام ترتوجہ اور توانیاں تنظیم کو بانک کریمہ اور ان کے گروہ کی منفی سیاست سے بچانے کیلے صرف کی ہے جس کیلئے قومی دانشوروں اور تحریک آزادی میں غیر متنازعہ شخصیات کے ساتھ بارہا رابطہ کر کے انہیں اس خطرناک اور تباہ کن سیاست کو روکھنے میں کردار ادا کرنے کیلئے مدعو کیا گیا تھا جس کے حوالے سے حقائق سامنے لائے جائینگے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ منفی و مفاداتی سیاست کی تابوت کو دفن کرتے ہوئے اور اسکی ذمہ داروں کا محاسبہ کیا جائے۔ ہم اپنے کارکنوں پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بانک کریمہ اور ان کے گروہ نے جس طرح گزشتہ تین سالوں سے بی ایس او آزاد کے اسیر و شہید کارکنوں کے قربانیوں کو سیڑھی بنا کر بی ایس او آزاد کو اپنی لیڈری چمکانے کا آلا بنائے رکھا اسی طرح آج تک وہ تنظیم کو رو ز بروز مزید تباہی کی جانب لے جاتے ہوئے شہیدوں اور اسیروں کے قربانیوں کو لیکر بلوچ عوام کے جذبات کو کیش کرنے کی ناکام کوششیں کر رہی ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ بانک کریمہ نے بی ایس او آزاد کو نقصان پہنچانے اور تقسیم کی جانب لیجانے کے حوالے سے جو جو الزامات لگائے ہیں درحقیقت بانک کریمہ خود ان تمام معاملات میں براۂ راست شامل رہی ہیں اور اس پورے سازش کا جس کا مقصد بی اس او آزاد کو ایک حقیقی انقلابی تنظیم سے منحرف کر کے اسے اپنی لیڈری چمکانے کا آلہ بنانا تھا اس کے مرکزی کردار رہی ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ گزشتہ پانچ سالوں میں بی ایس او آزاد پر جو جو سختیا ں گزری ہیں اور جو جو نقصانات بی ایس او آزاد نے بحیثیت تنظیم اٹھائے ہیں ان سب میں بانک کریمہ براہ راست شریک رہی ہیں ۔ خو د اپنے بیان میں بانک کریمہ یہ اقرارکرتی ہیں کہ بی ایس او آزاد کے چیئر مین سمیت 2010تا 2012کے دوران کابینہ غیر فعال رہی ہے جب کے اس دوران چیئر مین بشیر زیب کے غیر موجودگی، زاکر مجید کے اغواء کے بعد تنظیم کے حقیقی باگ ڈور بانک کریمہ کے ہاتھوں میں آچکی تھی اور آج یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بی ایس او آزاد کی تاریخ کی سب سے بڑی نقصان انہی دوسالوں میں ہو ئے جہاں ناکام لیڈرشپ اور غیر مستند حکمت عملیوں کی وجہ سے بی ایس او آز کے سینکڑوں کارکنان اغواہ اور شہید ہوئے اور تنظیم بلوچستان کے کونے کونے سے غائب ہوتی رہی اسی دوران ہی تنظیم کے اداروں کی بنیادیں کمزور کر کے اسے آسانی سے باجگزار بنانے کی تیاریاں کی گئی، تاریخ کے اوراق بانک کے اس سیاسی ناعاقبت اندیشی کو ہمیشہ جلے حروفوں میں یاد رکھیں گے ، اور یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ اسی دوران تنظیم کے کونسل سیشن کے تیاریاں ہونے کے باوجود مختلف حیلے بہانوں سے کونسل سیشن اور مرکزی کمیٹی کے مجالس کو ٹالتے ہوئے تنظیم کو اندرونی طور ر تبائی کی جانب لے جایا گیا۔ 2010سے لیکر 2012کے جس دور کا بانک کریمہ بڑی ڈھٹائی سے زکر کرتی ہیں حقیقت میں اس پورے دورانیئے میں تنظیم کے باگ ڈور بحیثیت وائس چیئر پرسن بانک کریمہ کے پاس تھی جب کے تنظیمی تمام تر معاملات زاہد بلوچ بحیثیت سیکریٹری جنرل چلا رہے تھے۔ تنظیم کے اس وقت کے درپیش حالات اور حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس دوران تنظیم کو جو جو مثاہل درپیش رہے ہیں ان کے اولین زمہ دار بانک کریمہ بحیثیت اٹھارویں کونسل سیشن کے وائس چیئر پرسن رہے ہیں ۔ بانک کریمہ کی لیڈرشپ کی ناکامی کی ہی دین ہے کہ بی ایس او آزد کے کارکنان یکے بعد دیگرے لاپتہ اور شہید ہوتے گئے اور بی ایس او آز د کے زون پے در پے غیر فعال ہو تے گئے اور و ہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ۔ اس کے ساتھ ہی بانک کریمہ نے بی ایس او آزد کے کارکنان کے یاداشت کو آزماتے ہوے انہیں تازہ حقائق سے بھی بیگانہ کرنے کی کوشش کی مگر درحقیقت وہ خود اپنی سطحی سوچ کاثبوت دیتے ہوئے حقائق کو نظر اندار کرنے کا ثبو ت دے رہی ہیں ۔ جس آرگنائزنگ باڑی کا سہرابانک کریمہ اپنے سر سجاتے ہیں درحقیقت و ہ آرگنائزنگ باڑی ہی تنظیم کے آئین کو یرغمال بنا کر تشکیل دیا گیا۔ اسی آرگنائزنگ باڑی میں ہی بانک کریمہ اور زائد بلوچ نے تنظیم کے 9 مرکزی ممبران کو فارغ کر کے اپنے لیئے مستقبل کا راستہ ہموار کیا جب کے اس کے بعد تنظیم کے تمام زونوں میں موجود ممبران اور زونل باڈی اور منتخب کونسلران کو نظر اندار کر کے اپنے من پسند لوگوں کے ساتھ آئین کو پامال کر کے خود کو تنظیم کی قیادت قرار دیا۔ آج ان کی اسی خود ساختہ قیادت کی وجہ سے بی ایس او آذ اد بحرانوں میں گھرا ہوا ہے اور ا سے قابو کرنے میں ناکامی کی وجہ سے اب بانک کریمہ اور ان کا گروہ بی ایس اوکے کارکنوں اور عوام کو بی ایس کو تقسیم کرنے کی سازش کے نام پرگمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بانک کریمہ کے بیان میں تنظیم کو تقسیم کرنے کے کوششوں کی جو زمہ داری کانسٹیٹیوشنل بلاک پر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے در حقیقت اس تقسیم کے وہ خود خواہا ں ہیں جس کیلئے وہ اپنی نام نہاداور بے بنیاد انیسویں کونسل سیشن کے بعد سے ہی کوششیں کر رہے ہیں تا کہ بی ایس او آزد تقسیم ہو کر ایک کوکھلا ڈھانچہ رہ جائے جسے بانک کریمہ اور ان کا گروہ آسانی سے اپنے لیڈری چمکانے کیلئے استعمال کر سکیں ۔ جس طرح انہوں نے خود ہی یہ اقرار کیا ہے کہ بی ایس او آزد کو تقسیم کرنے میں آزادی کا نام لینے والوں کا ہاتھ ہے لہذا یہاں ہم واضح کر دیں کہ آزادی کے نام لینے والے وہ ہاتھ خود بانک کریمہ اور ان کے گروہ کے ہیں جو کہ گزشتہ تین سالوں سے تحریک آزادی کو نام استعمال کرتے ہوئے منفی سیاست کے زر یعے بی اس او آزاد کو تقسیم کرنے کی راہیں پیدا کر رہی ہیں لیکن جس طرح آج تک کانسٹیٹیوشنل بلاک کے زریعے بانک کریمہ کی سیاست کے شکار ہونے والے بی ایس او آزاد کے کارکنان نے ان منصوبوں کو ناکام بناتے ہوئے بی ایس او آزاد کی تقسیم کو روکا ہوا ہے اسی طرح یہ امر یقینی ہے کہ مستقبل میں بھی بانک کریمہ اور ان کا گروہ اپنی خود ساختہ لیڈری سے محروم ہو جائیگی لیکن بی ایس او آزاادپھر بھی تقسیم نہیں ہو گی ۔ آج پورے بلوچستان میں خود کو ثانت کرنے کیلئے بانک کریمہ اور ان کا گروہ عوام کے جذبات اور قربانیوں کوکیش کرتے ہوئے اپنی ختم ہوتی وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن حیقت یہ ہے کہ بلوچستان کے چند علاقوں میں بانک کریمہ کے گروہ کے چند افراد کے علاوہ نہ ان کا کوئی تنظیمی ساخت ہے اور نہ ہی وہاں پر ان کی کو ئی بنیا د یں باقی رہ گئی ہیں۔ بلکہ آج بلوچستان کے تمام علاقوں میں کانسٹیٹیوشنل بلا ک کے تحت مختلف زون تمام تر تنظیمی لوازمات کو پوراکرتے ہوئے اس آسرے پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں کہ بی ایس او آزاد کے اندر بحرانو ں کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا ۔بانک کریمہ اوار ان کا گروہ بی ایس او آزاد کی بحرانی حالت اور شہداء و اسیروں کے قربانیوں کو استعمال کرنے کے بجائے زمینی حقائق تسلیم کرے اور تنظیم کے اداروں پر اپنی غیر آئینی بالادستی نافذکرنے کی کوششوں سے باز آجائیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ درج بالا حقائق سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بانک کریمہ کا اختیار کیا گیا موقف سراسر جھوٹ پر مبنی اور گمراہ کن و بے بنیاد ہے جس کے حوالے سے مزید تفصیلات جلد تنظیمی کارکنوں اورعوام کے سامنے رکھے جائینگے ۔۔۔