کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے تمپ ،پنجگوراور کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں جاری فوجی کاروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فورسز نہتے لوگوں پر اپنی طاقت کا استعمال کرکے بلوچ نسل کشی کی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گذشتہ روز تمپ کے علاقے ملانٹ میں فورسز نے آبادی کو گھیرے میں لے کر آپریشن شروع کردیا۔ اس دوران فورسز کی اندھا دھند فائرنگ و گولہ باری کی زد میں آکر رشید بلوچ نامی ایک شخص زخمی ہوا جبکہ دو درجن کے قریب نہتے لوگوں کو فورسز اغواء کرکے ساتھ لے گئے ۔ مغویوں میں صدیق ولد گل محمد ،عبدالصمد ولد شمبئے ،عالم ولد عبدالواحد ،دادو ولد پیر محمد،رشید ولد چاچا عبدالرحمان ،سبزل ولد وہاب،ولید ولد عیسی ،حسن ولد محمد الہی ،رفیق ولد حسین،ہوزمی ولد محمد،راشد ولد ہوزمی،صدیق ہوت ولد محمد انوراور ملا گل جان ولد آدم شامل ہیں ۔اس کے علاوہ کوئٹہ میں گذشتہ روز کلی ترخہ میں فورسز نے 39نہتے لوگوں کو مشتبہ افراد قرار دیکر انہیں جبری طور پر لاپتہ کیا ۔کوئٹہ سے اس سے پہلے بھی فورسز نے کاروائیوں کے دوران سینکڑوں لوگوں کو حراست کے بعد لاپتہ کردیا ہے ، حالیہ کارروائی بھی انہی کا تسلسل ہے ۔ ان کے علاوہ گذشتہ دنوں پنجگور سے فورسز نے آپریشن کرکے بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی چیئرمین خلیل بلوچ کے گھر پر چھاپہ مار کر گھر میں حسب روایت لوٹ مار کے بعد چیئرمین خلیل کے چھوٹے بھائی سیف بلوچ کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ ترجمان نے کہا کہ ریاستی فورسز عالمی انسانی حقوق و اخلاقی اقدار کو پاؤں تلے روند کر بلوچ فرزندان کو لاپتہ کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین و کمسن بچوں کو بھی نشانہ بنارہے ہیں ۔فورسز کی کاروائیوں میں چائنا کی سرمایہ کاریوں کے بعد انتہائی شدت لایا گیا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں خاندان نکل مکانی پر مجبور ہورہے ہیں۔بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ایک منصوبے کے تحت لوگوں کے لئے فورسز کی جانب سے زندگی گزارنے کے تمام ذرائع بند کیے جا رہے ہیں تاکہ ان علاقوں میں اپنے مجوزہ منصوبوں کو بغیر کسی عوامی مذاحمت کے پائیہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ گوادر سے متصل علاقہ دشت میں حالیہ کاروائیاں اور ہزاروں خاندانوں کو زبردستی ان کے علاقوں سے نکل مکانی پر مجبور کرنا انہی منصوبوں کا حصہ ہے۔بی ایس او آزاد کے ترجمان نے کہا کہ بلوچ عوام کے خلاف پاکستان اور چین اتحاد لاکھوں بلوچوں کی زندگی و ان کے مستقبل کو دعوے پر لگا چکی ہے لیکن قوموں کی خود مختاری کی حفاظت کے دعویدار عالمی ادارے بلوچوں کی نسل کشی اور قتل عام کی کاروائیوں پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مہذب ممالک بلوچ مسئلے کو پاکستان کا اندرونی مسئلہ سمجھنے کے بجائے بلوچ مسئلے کی پرامن حل کے لئے ثالثی کا کردار ادا کریں تاکہ بلوچ عوام کو اپنی زمین پر آزادی سے رہنے کا حق دیا جا سکے۔