شال (ہمگام نیوز) نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے بیان میں کہا کہ بلوچستان جو قدرتی وسائل، قدیم تہذیب و تاریخ، قومی شناخت اور انتہائی اہم جغراآفیہ کی مالک کی حیثیت سے اس وقت سنگین ریاستی جبر، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اور سیاسی و معاشی استحصال کا شکار ہے، اس ناقابل قبول صورتِ حال پر گہرے دکھ اور شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں نہ صرف معمول بن چکی ہیں بلکہ ایک ریاستی پالیسی کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ درجنوں نوجوان، طلباء اور سیاسی کارکنان دن دہاڑے اٹھا لیے جاتے ہیں اور ان کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ان افراد کو نہ عدالت میں پیش کیا جاتا ہے، نہ ان پر کسی جرم کا الزام لگایا جاتا ہے، بلکہ انہیں آئین، قانون اور انسانی اقدار سے ماورا ایک اندھے نظام کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ جبری گمشدگی چاہے کسی کے ساتھ بھی ہو، اور چاہے وہ کسی بھی جرم میں ملوث کیوں نہ ہو، اس عمل کو کسی صورت قانونی، اخلاقی یا انسانی جواز نہیں دیا جا سکتا۔ بغیر عدالتی کارروائی کے کسی فرد کو لاپتہ کرنا، اس کے بنیادی حقوق سے انکار کرنا، اور اس کے خاندان کو اجتماعی اذیت میں مبتلا کرنا ریاستی دہشتگردی کی بدترین شکل ہے۔
اس ظلم کا ایک اور بھیانک چہرہ ماورائے عدالت قتل ہے، جہاں لاپتہ افراد کو مہینوں یا برسوں بعد جعلی مقابلوں میں قتل کر “دہشتگرد” قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایسی تمام کارروائیاں انصاف کے اصولوں، انسانی اقدار اور ریاست کی آئینی ذمہ داریوں سے انحراف ہیں۔ ان مظالم کے خلاف اٹھنے والی سیاسی آوازوں کو بھی ریاستی آمرانہ ذہنیت کا سامنا ہے۔ بی وائے سی کے مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر ماہرنگ سمیت دیگر بلوچ سیاسی کارکنان کو“ 3ایم پی او” جیسے نوآبادیاتی قوانین کے تحت پابندِ سلاسل کرنا، بنیادی انسانی و سیاسی آزادیوں پر حملہ ہے۔ پرامن مظاہرہ، احتجاج اور رائے کا اظہار ہر شہری کا آئینی حق ہے، جسے سیکیورٹی اور امن کے نام پر دبانا دراصل ایک منظم خوف، بوکھلاہٹ اور بے انصافی کا عکاس ہے۔ اس غیر آئینی قید کی مدت میں توسیع کرنا اور بیبو بلوچ کے وکیل اور اہل خانہ کو طلاع دیے بغیر انہیں دوسری جگہ مبہم انداز میں منتقل کرنے کا مقصد بھی انہیں ذہنی کوفت میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی کارکنوں کو بغیر کسی عدالتی عمل کے جیل میں رکھنا اور انہیں مختلف طریقوں سے ذہنی دباؤ میں لانا ایک غیر جمہوری، غیر آئینی اور استبدادی عمل ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔
بلوچستان کے استحصال کی داستان صرف انسانی حقوق کی پامالی تک محدود نہیں بلکہ اقتصادی سامراجیت کی شکل بھی اختیار کر چکی ہے۔ حالیہ ’مائنز اینڈ منرلز ایکٹ‘ جیسے قوانین دراصل بلوچستان کے معدنی وسائل پر وفاقی و عسکری اداروں کی اجارہ داری قائم کرنے کا قانونی جواز فراہم کرتے ہیں۔ اس قانون کے ذریعے “اسٹریٹجک منرلز” کی مبہم تعریف دے کر قومی حقوق کو روندنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ اقدام اس ریاست کے اپنے ہی 18ویں آئینی ترمیم کی روح کے خلاف ہے اور بلخصوص بلوچستان کے عوام کو ان کے قدرتی وسائل سے محروم کرنے کی کھلی سازش ہے۔ اس استحصالی عمل کا تسلسل ان خفیہ معاہدوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جو گوادر، ریکوڈک، سیندک اور دیگر علاقوں میں غیر ملکی کمپنیوں، عسکری اداروں اور سرمایہ دار حلقوں کے درمیان طے پاتے ہیں۔ ان تمام معاہدوں میں بلوچ قوم کے مرضی و منشا کو پس ء پشت ڈال کر چند زر خرید جہنیں عوامی نمائندوں کا نام دے کر ان کے ذریعے لوٹا جا رہا ہے. بلوچستان کے وسائل کے فیصلے اسلام آباد کے ایوانوں اور عسکری دفاتر میں ہوتے ہیں، جبکہ ان وسائل پر سب سے پہلا حق بلوچ عوام کا ہے۔
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سمجھتی ہے کہ یہ تمام عمل جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، سیاسی پابندیاں، اور وسائل کی لوٹ مار ، ایک مربوط ریاستی پالیسی کا حصہ ہیں جس کا مقصد بلوچستان کو ایک کالونی کی طرح چلانا ہے۔ لیکن یاد رہے ہر دور میں بلوچ بحیثیت قوم کسی نہ کسی صورت میں ان تمام ریاستی حربوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے۔