سه شنبه, مارچ 25, 2025
Homeخبریںبلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کو فلسفہ اور دفاعی حکمت عملی۔ کوہ...

بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کو فلسفہ اور دفاعی حکمت عملی۔ کوہ گرک 

بلوچ مزامتکاری کو اگر مختلف زاویوں سے زیادہ تفصیل کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور متنوع لڑائی کی صورت اختیار کرتی ہے، جس میں نہ صرف ثقافتی بقا اور آزادی کا مسئلہ ہے بلکہ اس میں حکمتِ عملی، اخلاقیات، اور وجودی سوالات بھی شامل ہیں۔ جب فلسفیانہ اور دفاعی حکمت عملی کے دونوں پہلووں کو ایک ساتھ جوڑا جاتا ہے تو ہمیں بلوچوں کی مزاحمت کی گہرائی اور پیچیدگی کا پورا فہم حاصل ہوتا ہے۔

1. وجودیت پسندی(existentialism)، آزادی اور غیر متوازن جنگ(imbalanced warfare)وجودیت پسندی کا فلسفہ انسان کو آزادی، خود ارادیت اور معنی کی تلاش میں اہمیت دیتا ہے۔ بلوچوں کی جدوجہد کو اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ صرف ایک سیاسی یا جغرافیائی مسئلہ نہیں بلکہ ایک وجودی لڑائی ہے۔ ان کی مزاحمت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بلوچ قوم اپنے وجود، اپنی زبان، اپنی ثقافت اور اپنی آزادی کے حق میں لڑ رہی ہے۔ یہ جنگ ان کی ذاتی شناخت کی بقا کی جنگ ہے، جس میں ہر بلوچ کا یہ سوال ہے: “کیا ہمارا وجود حقیقتاً اہم ہے؟”

جب ہم دفاعی حکمت عملی کی بات کرتے ہیں، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بلوچوں کو اس جنگ میں غیر متوازن طاقتوں کا سامنا ہے۔ ایک طرف جدید ریاستی طاقتیں ہیں جن کے پاس جدید فوجی وسائل اور ٹیکنالوجی ہے، اور دوسری طرف بلوچ قوم ہے جو اپنی آزادی کی جدوجہد میں غیر روایتی طریقوں کا سہارا لے رہی ہے۔ کلازویٹز کا یہ نقطہ کہ “جنگ سیاست کا دوسرا روپ ہوتی ہے” بلوچوں کے لیے اہم ہے، کیونکہ یہ جنگ صرف فوجی کامیابی کی نہیں، بلکہ ایک وسیع تر سیاسی مقصد—خودمختاری اور آزادی—کا حصول ہے۔ اس میں دشمن کے خلاف جنگ کو ایک سیاسی پیغام کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جو عالمی سطح پر بلوچوں کے معاملے کو اجاگر کرتا ہے۔

2. بعد نوآبادیاتی سوچ، ثقافتی بقا اور حکمتِ عملی کی چالاکی بعد نوآبادیاتی فلسفہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ دنیا کے بہت سے علاقے، جن میں بلوچستان شامل ہے، ابھی تک نوآبادیاتی اثرات سے آزاد نہیں ہوئے۔ تاریخی طور پر، بلوچوں کی سرزمین پر مختلف نوآبادیاتی طاقتوں کا تسلط رہا ہے، اور اب یہ طاقتیں جدید ریاستوں کی شکل میں موجود ہیں۔ فرینز فینن کا نظریہ کہ “مظلوموں کا حق ہے کہ وہ اپنے ظلم کا بدلہ لیں”، بلوچوں کی جدوجہد کو ایک جائز ردعمل کے طور پر دیکھنے کی اجازت دیتا ہے۔

سن تزُو کی حکمتِ عملی کی اہمیت اس بات میں ہے کہ وہ غیر متوازن جنگ کے لیے فریب، ذہنی دباؤ، اور آہستہ آہستہ دشمن کو تھکانے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ بلوچوں کے لیے یہ حکمت عملی بہت اہم ہے، کیونکہ ان کے پاس دشمن کی طاقت کے مقابلے میں فوجی وسائل نہیں ہیں۔ سن تزُو کی یہ کہاوت کہ “تمام جنگیں فریب پر مبنی ہوتی ہیں” ان کی حکمتِ عملی کو تشکیل دیتی ہے۔ بلوچوں کے لیے ایک اہم حکمتِ عملی یہ ہوگی کہ وہ دشمن کو بظاہر مضبوط دیکھنے کے باوجود اس کی کمزوریوں کو پکڑیں اور اپنی گوریلا جنگ کی حکمتِ عملی کے ذریعے دشمن کو غیر متوقع حملوں کے ذریعے مشکلات میں ڈالیں۔

ثقافتی بقا کا مسئلہ اس جدوجہد کی بنیاد ہے، کیونکہ بلوچ قوم اپنی شناخت، زبان اور ثقافت کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہے۔ اگرچہ بلوچوں کو اقتصادی اور فوجی طور پر کمزور سمجھا جاتا ہے، ان کی ثقافت اور زبان کا تحفظ ان کی مزاحمت کا مرکزی مقصد ہے۔

3. جنگِ جائزہ، اخلاقی جواز اور گوریلا حکمت عملی

جنگ کے اخلاقی جواز کو سمجھنا اس معاملے میں ضروری ہے۔ “جنگ صرف اس صورت میں جائز ہو سکتی ہے جب اس کا مقصد ظلم کا خاتمہ اور انصاف کا قیام ہو”۔ بلوچوں کی جدوجہد عالمی اخلاقی اصولوں کے مطابق جائز سمجھی جا سکتی ہے کیونکہ وہ طویل عرصے سے سیاسی، اقتصادی اور سماجی جبر کا شکار ہیں۔ یہ جنگ ان کے بنیادی حقوق، آزادی اور خودمختاری کے حصول کی لڑائی ہے۔

ماؤ زے تنگ کی گوریلا جنگ کی حکمتِ عملی یہاں انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ ماؤ کا کہنا تھا کہ “جنگ ایک طویل عمل ہے جس میں مخالف کو اس کے کمزور پہلووں سے ہرا کر مسلسل دباؤ ڈالا جاتا ہے”۔ بلوچوں کی جدوجہد میں گوریلا جنگ کا یہ اصول بہت اہم ہے۔ گوریلا حکمتِ عملی کے تحت، بلوچوں کو بڑی طاقت کے خلاف چھوٹے، مسلسل حملے کرنے ہوں گے، اور اپنے وسائل کو زیادہ سے زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کرنا ہوگا۔ اس طرح کے حملے دشمن کی فوجی استعداد کو کمزور کرتے ہیں اور اس کی طاقت کو جتنا ممکن ہو سکی، سست کرتے ہیں۔

اس میں ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ گوریلا جنگ میں اخلاقی جواز کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ یعنی جنگ میں غیر جنگجوؤں کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور حملوں کو فوجی اہداف تک محدود رکھا جائے۔

4. عالمی اخلاقیات، انسانی حقوق اور ہائبرڈ جنگ

عالمی اخلاقیات میں یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ بلوچوں کی جدوجہد کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جائے۔ بلوچوں کی تحریک کو انسانی حقوق کے نظریے کے تحت جائز قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ حقِ خود ارادیت کی بنیاد پر لڑ رہے ہیں۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بلوچوں کے حقوق کی حمایت کرے اور انہیں عالمی فورمز پر آواز دینے کا موقع دے۔

ہائبرڈ جنگ کی حکمتِ عملی کو بھی اپنانا ضروری ہے، جو روایتی جنگ کے طریقوں کو غیر روایتی جنگی حکمت عملیوں جیسے سائبر حملے، میڈیا کمپینز اور سفارتی مداخلتوں کے ساتھ جوڑتا ہے۔ بلوچوں کو اپنی مزاحمت کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے سفارتی اور اطلاعاتی جنگ لڑنی ہوگی، تاکہ دنیا کے مختلف حصوں میں ان کے حق میں رائے عامہ ہموار کی جا سکے۔

بلوچوں کی جدوجہد کو عالمی سطح پر تسلیم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی بات کو عالمی میڈیا کے ذریعے پھیلائیں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں سے حمایت حاصل کریں۔ اس کے علاوہ، عالمی دباؤ ڈالنے کے لیے بلوچوں کو اپنے مقصد کے حق میں سفارتی تعلقات اور بین الاقوامی تعلقات کا استعمال کرنا ہوگا۔

بلوچوں کی آزادی کی جدوجہد کو فلسفہ اور دفاعی حکمت عملی کے زاویوں سے دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک پیچیدہ، کثیر الجہتی جنگ ہے جو نہ صرف فوجی میدان میں بلکہ اخلاقی، ثقافتی اور عالمی سطح پر بھی لڑی جا رہی ہے۔ بلوچوں کی مزاحمت میں جہاں ایک طرف اخلاقی جواز موجود ہے، وہیں دوسری طرف غیر متوازن جنگ کے اصولوں اور گوریلا حکمتِ عملی کا استعمال کرکے وہ اپنے دشمنوں کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بلوچوں کی یہ جدوجہد ایک طویل المدتی، کثیر الجہتی مزاحمت ہے، جس میں فلسفیانہ، اخلاقی اور دفاعی حکمتِ عملی کا امتزاج ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز