برلن (ہمگام نیوز) جرمنی میں موجود بلوچ ڈائیسپورہ نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی شدید پامالیوں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا جس میں احتجاجی مظاہرے کے ساتھ ایک ریلی کا انعقاد کیا جائے گا۔

میڈیا میں جاری اعلامئیے کے مطابق یہ احتجاج 19 اپریل کو دوپہر دو بجے جرمنی کے شہر ہنوفر میں مرکزی ریلوے اسٹیشن کے سامنے منعقد کیا جائے گا جو شام 5 بجے تک جاری رہے گا۔

بلوچ ڈائیسپورہ جرمنی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اس وقت بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ریاست نے شدت پیدا کی ہوئی ہے جہاں دو دہائیوں سے جاری جبری گُمشدگیوں، جعلی مقابلوں میں پہلے سے تحویل میں لئے گئے جبری گُمشدگی کے شکار افراد کی شہادتیں، اجتماعی سزائیں اور سیاسی کارکنوں کے خاندانوں کو نشانہ بنانے اور بلیک میل کرکے ان کو ان کی پرامن سیاسی جدوجہد سے دور کرنے کی جو کوششیں پچھلے دو دہائیوں سے جاری تھیں ان میں شدت پیدا کی گئی ہے اور اس جبر میں بلوچ خواتین براہ راست ریاستی جبر کا نشانہ ہیں۔ چونکہ بلوچ خواتین اس وقت بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین ورزیوں اور ریاستی جبر کے خلاف ایک توانا اور مضبوط آواز بن کر اُبھری ہیں اس لئے اس آواز کو دبانے کے لئے پاکستان نے اپنے مظالم کا رُخ ان خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کی جانب موڑ دیا ہے تاکہ وہ آواز دنیا تک نہ پہنچ سکے تاکہ جس طرح سے ریاست نے دو دہائیوں سے جاری ریاستی جبر کے دنیا کے سامنے آنے سے روکا ہوا ہے اس کو اُسی طرح روکا جاسکے تاکہ دنیا اُسی طرح سے بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بے خبر رہے جس طرح پچھلے دو دہائیوں سے اُس کو بے خبر رکھا گیا ہے۔

میڈیا میں جاری بیان میں بلوچ ڈائیسپورہ جرمنی نے مزید کہا کہ اس وقت بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تمام قیادت بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف مزاہمت کرنے کی پاداش میں ریاستی زندانوں میں پابند سلاسل کردی گئی ہے۔ گرفتار کئے گئے رہنماؤں میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بھی شامل ہیں جو عالمی سطح پر ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ جن کو ان کی انسانی حقوق کے لئے کام کرنے اور خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے اعتراف میں مختلف اداروں کی جانب سے آوارڈ دئیے گئے ہیں لیکن جہاں مہذب دنیا ایسے رہنماؤں کو اعزازات سے نوازتی ہے وہیں پاکستان نے ڈاکٹر ماہ رنگ کو بغیر کسی جُرم میں غیر قانونی طور پر گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ کے علاوہ بی بگر بلوچ جن کو 2009 میں ریاستی پالے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ کے ایک حملے میں شدید زخمی کیا گیا تھا اور اُسی حملے کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے آج تک قاصر ہیں اور اس وقت ایک ویل چئیر کے ذریعے حرکت کرتے ہیں مگر انہوں نے اپنی پرامن جدوجہد کو جاری رکھا ہوا ہے اس لئے وہ بھی اس وقت ریاستی جیل میں بغیر کسی جُرم کے جیل کاٹ رہے ہیں۔ سبغت اللہ شاہ جی، بیبو بلوچ اور گُل زادی بھی اس وقت جیل میں ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ جب جیل کی سلاخیں بہادر بلوچ خواتین کے حوصلے کمزور نہ کرسکیں اور وہ اپنی پر امن جدوجہد سے پیچھے نہ ہٹیں تو اب ان کے خاندان کے دیگر افراد کو بھی اُٹھا کر جیلوں میں ڈالنا شروع کردیا گیا ہے جہاں بیبو بلوچ اور ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے بُزرگ والد کو غیر قانونی طریقے سے حراست میں لیکر جیل منتقل کردیا گیا ہے۔ اس تمام ظُلم و جبر اور غیرانسانی و غیر قانونی اعمال پر پاکستان کو کبھی بھی منتخب ذمہ دار اداروں نے جواب دہ نہیں کیا جو ریاست پاکستان کی ان اعمال کو جاری رکھنے کے لئے حوصلہ افزائی کا سبب بن رہے ہیں۔ ہم اپنے احتجاج کے ذریعے ان اداروں اور دنیا کے مہذب اقوام تک بلوچستان کی آواز پہنچانے کی کوشش کریں گے تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ کس طرح سے ایک قوم کی نسل کُشی کی جارہی ہے اور کس ظالمانہ طریقے سے اس نسل کُشی کو دنیا تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اپنے بیان کے آخر میں بلوچ ڈائیسپورہ جرمنی نے جرمنی میں رہنے والے تمام بلوچوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے درخواست کی کہ وہ اس احتجاج کا حصہ بن کر ہماری آواز میں آواز ملا کر اس کو طاقت و توانائی فراہم کریں تاکہ اس ظالمانہ جبر کو روکا جا سکے۔