زاہدان (ہمگام نیوز) رپورٹ کے مطابق پیر 29 اکتوبر کو زاہدان میں مرکز صحت کے ماہر “منیر افتخاری نیا” نے سرکاری میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں غذائی عدم تحفظ اور غذائیت کی کمی کے تین اشاریوں کی بنیاد پر “کم وزن، دبلا پن اور چھوٹا قد” دوسرے صوبوں کی نسبت دوگنا زیادہ ہے۔ اور غذائی قلت کا شکار زیادہ تر 5 سال سے کم عمر کے بچے ہیں۔

 زاہدان یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کا یہ ماہر اس مسئلے کی بنیادی وجوہات میں کم آمدنی اور گھریلو غربت کے ساتھ ساتھ مناسب اور غذائیت سے بھرپور خوراک تک رسائی کی کمی کو بھی مانتا ہے۔

 بلوچ بچوں کی غذائی قلت اور کم وزن اس حقیقت کی وجہ ہے کہ گوشت، چکن اور مچھلی جیسے پروٹین غذا تک رسائی گھرانوں کے کھانے کی ٹوکریوں میں ملنا مشکل ہے۔

 کم آمدنی والے اور پسماندہ طبقوں کی زیادہ آبادی، وسیع پیمانے پر غربت، مہنگائی اور عوام کی روزی روٹی کے حوالے سے حکام کی بے حسی وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے اس بلوچستان میں بچوں میں غذائیت کی کمی اور کم وزن کی شرح ایران کی قومی اوسط سے دوگنی ہوگئی ہے۔ بلوچ بچوں کے لیے ایک اور مسئلہ پاؤڈر دودھ کی کمی یا فارمیسیوں میں اس کی زیادہ قیمت ہے، جسے خاندان برداشت نہیں کر سکتے۔

 واضح رہے کہ جہاں بلوچ قوم کو ایران کی مرکزی حکومت کی طرف سے مسلط کردہ غربت کا سامنا ہے، وہیں بلوچستان میں قابض ایران نے بلوچستان میں اپنی قبضہ گیریت کو مضبوط کرنے کے لیے بہت سے سامراجی انفراسٹرکچر اور بارودی سرنگیں بچھائے ہیں ۔ لیکن بہت سارے فنڈز میں بلوچ قوم کا حصہ “کوئی نہیں” ہے۔