شال: (ہمگام نیوز) فری بلوچستان مومنٹ نے اپنی جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ وہ ایران اور پاکستان دونوں قبضہ گیر قوتوں کے خلاف ایک آزاد و خود مختار اور متحدہ بلوچستان کے لئے جد و جہد کررہا ہے دونوں قبضہ گیر قوتیں بلوچ قومی وجود کو ختم کرنے کے لئے عرصہ دراز سے اپنی کوششوں و کاوشوں میں ایک دوسرے کے اتحادی رہے ہیں اور بلوچ قوم کی نسل کشی میں دونوں کا کردار ایک جیسا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ فری بلوچستان مومنٹ متحدہ بلوچستان کی آزاد حثیت کی بحالی کے لئے جد و جہد کی پالیسی پر گامزن ہے، ہم دشمن کی طرف سے کوائن کئیے ہوئے اصطلاحات( terminology) میں پڑے بغیر بلوچ سرزمین کی بحیثیت ایک اکائی اور پوری بلوچ قوم کی آزادی کی فلسفے پر یقین رکھتے ہیں، فری بلوچستان مومنٹ بحیثیت ایک آزادی پسند پارٹی کے بلوچستان کی قبضہ گیریت اور جبری بندر بانٹ کے بنا پر مغربی و مشرقی بلوچستان جیسی گمراہ کن اصطلاحات کے استعمال کا ہر گز قائل نہیں ہے ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان ایک متحدہ سرزمین ہے جسے برطانوی حکومت کی سیاسی چالبازیوں اور بلوچ قومی منشاء کے برخلاف الگ الگ ٹکڑوں میں بانٹا گیا ہے تاکہ بلوچ قومی اجتماعی طاقت اور اسکی اکٹھ کو کمزور کیا جا سکے۔ اسی موقف کے تحت فری بلوچستان مومنٹ سمجھتا ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کہیں بلوچ موجود ہیں انکا دکھ درد اور ان پر ہونے والے جبر تمام بلوچ قوم کے اجتماعی تکالیف کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں اور فری بلوچستان مومنٹ دنیا کے دیگر ممالک میں آباد تمام بلوچوں کی حقوق کی تحفظ اور انکی متحدہ سرزمین کی آزادی اور بلوچستان کے اندر رہنے والے تمام بلوچوں کی دفاع کے لئے یکساں طور پر اپنی جد و جہد کو جاری رکھے گا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ماضی میں مختلف اقوام غلامی کے جبر کے سبب منقسم رہے ہیں جیسا کہ جرمنی، پولینڈ اور ویت نام لیکن انہوں نے اپنی وحدت اور متحدہ زمین کی حصول کی کوششوں کو محض اس بنیاد پر ترک نہیں کیا کہ وہ مختلف قوتوں کے زیردست ہیں لہذا وہ اپنی جد و جہد میں کامیاب رہیں اور آج وہ تمام قومیں اپنی اسلاف کی تاریخی زمین پر متحدہ قومی قوت کے ساتھ جی رہے ہیں۔ قابض قوتوں کی طرف سے بلوچ قوم کو تقسیم کرنے اور اسکی اجتماعی طاقت کو منتشر کرنے کی ہزارہا کوششوں کے باوجود اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ بلوچ سرزمین کی وحدت ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے اور بلوچ قومی اجتماعیت کو دشمن قوتوں نے تقسیم کیا ہے اور وہ اسی تقسیم کی بنیاد پر بلوچ قوم کو زیر نگین رکھنے کی کوششیں کررہے ہیں اگر اس تقسیم کو کوئی بھی تسلیم کرے اور یہ سمجھے کہ دونوں قابضین ( گجر اور پنجابی) میں سے کوئی بھی بلوچ قوم کا خیر خواہ ہے تو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہوگی۔

کسی قوم کی سرزمین کی تقسیم اور اسکی قومی اجتماعیت کو پارہ پارہ کرنے کی عمل کو محض اس لئے تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ اسکی سرزمین کو سامراجی قوتوں نے اپنی سیاسی مفادات کے پیش نظر کئی حصوں میں تقسیم کرکے اور مختلف دشمنوں کے زیر اثر کردیا ہے یہ جبری قبضہ اور بلوچ قومی تقسیم چاہے کتنی بھی پرانی ہو وہ بلوچ منشا اور بلوچ قومی اجتماعیت کے خلاف ہے اور بلوچ بحیثیت قوم اس تقسیم کے خلاف ہمیشہ مزاحمت کا علم بلند کرتی رہیگی، چار سال بعد بلوچستان کے ایک حصے پر برطانوی حکومت کی بندر بانٹ کی پالیسی کے سبب ایرانی قبضے کو سو سال پورے ہوجائینگے لیکن فری بلوچستان مومنٹ اس چیز کو خاطر میں لائے بغیر بلوچ قومی وحدت، بلوچ سرزمین کی مکمل آزادی اور اسکی متحدہ حیثیت کو برقرار رکھنے کی اپنی کوششوں میں ایک دقیقہ فروگزاشت نہیں کریگا۔

آج بلوچستان تین حصوں میں تقسیم ہے ڈیرہ غازی خان سے بندر عباس تک اور دوسری طرف کراچی سے لیکر نمروز تک بلوچ جغرافیے کی طول و عرض پر پھیلی بلوچ وطن کی تاریخ موجود ہے ایک طرف ایران نے ایک حصے پر قبضہ کیا ہے اور مقبوضہ بلوچستان کو مزید انتظامی یونٹوں میں منقسم کردیا ہے تاکہ بلوچ کی اجتماعی و قومی قوت کو کمزور کرکے اپنی قبضے کو دوام دے سکے، اور وہاں بلوچ نسل کشی میں آئے دن اضافہ دیکھا جارہا ہے اور بلوچ قومی ثقافت اور اسکی ننگ و ناموس پر حملہ آور ہے دوسری طرف پاکستان نے ایک بڑے حصے پر اپنے پنجے گاڑ دئیے ہیں اور بلوچ کی اجتماعی قوت کو توڑنے کے لئے مقبوضہ بلوچستان کے کئی علاقوں کو پاکستانی صوبوں میں تقسیم کیا ہے اور وہاں مختلف طریقوں سے بلوچ کی نسل کشی کی جارہی ہے اور چین اور کچھ دیگر مسلم ممالک کے ساتھ ملکر بلوچ سرزمین پر موجود وسائل کو لوٹنے کے ساتھ بلوچ کو معاشی طور پر مفلوج بنا کر رکھ دیا گیا ہے تاکہ بلوچ دو وقت کی روٹی اور نان شبینہ کے علاوہ کسی اور بارے میں سوچنے کے قابل نہ رہے اسی طرح بلوچستان کا ایک حصہ انگریزی استعمار کی برصغیر آمد اور بلوچ و افغان علاقوں کو غیر فطری حدبندیوں کے ذریعے ایک دوسرے کے علاقوں میں شامل کرکے دونوں اقوام کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی بھرپور کوششیں کی ہیں لیکن جس طرح افغان اور بلوچ قیادت نے فہم و فراست کا مظاہرہ کرکے ایک دوسرے کی قومی حیثیت کو قبول کرکے باہمی اتحاد و اتفاق کو برقرار رکھا ہے یہ انتہائی خوش آئند بات ہے اور ایف بی ایم یہی سمجھتا ہے کہ افغان اور بلوچ دونوں استعماری سازشوں کے شکار ہیں اور جب وقت آئیگا تو بلوچ اور افغان قیادت اسی باہمی امداد و احترام کے تحت سیاسی بنیادوں پر اپنے اپنے سرزمین کی غیر فطری حدبندیوں کو ختم کرکے ایک دوسرے کی تاریخی و قومی حثیت کو تسلیم کریں گے۔