شال:(ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ بلوچ ثفاقت پر قابض پاکستانی ریاست کی یلغار کے بعد دو مارچ کو بطور “بلوچ کلچر ڈے” منانے کا فیصلہ کیا جسے آج پوری بلوچ قوم کلچر ڈے کے طور پر مناتی ہے۔ بلوچستان کو بزور طاقت قبضہ کرنے کے بعد سے بلوچ ثقافت اور شناخت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
ایک آزاد بلوچستان میں بلوچ قوم اپنی شناخت اور ثقافت کو محفوظ اور اس کی ترویج کر سکتی ہے۔ قابض ریاست کی کوشش ہے کہ ہزاروں سالوں کی بلوچ ثقافت اور شناخت کو نومولود ریاستی شناخت کے ساتھ ضم کیا جائے جس کے لیے ریاست ہر ممکن کوشش کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔قابض ریاست کی بلوچ ثقافت اور شناخت کو مسخ کرنے کی کوششوں کے خلاف بلوچ قوم کو مضبوط توانائی کے ساتھ جدوجہد کرنا چاہیے۔ بلوچ کلچر کو بلوچ مزاحمت کے سانچے میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچ ثقافت مزاحمت کی علامت ہے اور بلوچ قومی ثقافت اس بات کی گواہ ہے کہ ہم ہزاروں سالوں سے اس سرزمین پر ایک جداگانہ قومی شناخت اور ایک زندہ قوم کی حیثیت سے زندگی بسر کررہے تھے۔ جبکہ بحیثیت انقلابی تنظیم ہم سمجھتے ہیں کہ نیشنل ازم کی جدوجہد میں قومی ثقافت کی بنیادی اور اہم کردار ہے اور قومی ثقافت کو زندہ و جاوید رکھنا انقلابی تنظیموں کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس کے ساتھ نیشنل ازم کی بنیاد پر ہونے والی بلوچ قومی تحریک اس بات کو بھی واضح کرتی ہے کہ کسی بھی قوم کی ثقافت اعلی یا کمتر نہیں ہوتی ہے۔
ہر ایک قوم کی ثقافت ان زندہ قوموں کی ترجمان ہے اور ہم بحیثیت محکوم قوم اپنے ثقافت سے والہانہ محبت کرتے ہیں جبکہ دوسرے اقوام کے ثقافت کی احترام بھی کرتے ہیں۔ لیکن کالونیل طاقتوں نے ثقافتوں میں اعلی اور کمتر کا تصور پیش کیا جس کا مقصد محکوم قوموں کی ثقافتوں کو ختم کرنا ہے۔ جبکہ کالونیل طاقتیں محکوم اقوام کی ثقافت اور شناخت کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کرتے ہیں۔ اس ثقافتی عدم برداشت میں کالونیل طاقتیں محکوم کی ثقافت کو مسخ کرنے لیے تشدد اور طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ جس کی واضح مثال دو مارچ 2010 کو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی جانب سے خضدار میں ہونے والے ثقافتی دن کے پروگرام پر ریاستی فورسز اور ڈیتھ اسکواڈ کا حملہ تھا جس میں بی ایس او آزاد کے ممبران جنید اور سکندر شہید ہو گئے تھے جبکہ دیگر کئی ممبران سمیت درجنوں کی تعداد میں طلباء زخمی ہو گئے تھے۔ بلوچ ثقافت کو زندہ رکھنے کیلئے شہید جنید اور سکندر سمیت ہزاروں بلوچ جوانوں نے اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔
ترجمان نے بیان کے آخر میں بلوچ طلبہ و عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج بہت سے مقامات پر ریاست اس دن کو مناکر بلوچ ثقافت پر اپنی یلغار اور ظالمانہ کردار کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ بلوچ قوم اس دن کو اپنے قومی ثقافتی دن کے طور پر منائے اور کسی بھی ریاستی پروگرام میں شرکت نہ کریں کیونکہ آج بلوچ قومی ثقافت کو سب سے زیادہ خطرہ ہی اسی ریاست سے ہے۔ ہمیں تقافتی دن منانے کے ساتھ ساتھ بلوچ کلچر کو زندہ رکھنے کیلئے بلوچ مزاحمت کو مضبوط کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہماری شناخت اور ثقافت دونوں محفوظ رہ سکتے ہیں۔