کوئٹہ (ہمگام نیوز )بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی ملتان میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی جانب سے بلوچ طالب علموں پر خونی اور وحشیانہ تشدد کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ معمولی جھگڑے کو طول دے کر بلوچ طالب علموں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنانا یونیورسٹی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔یونیورسٹی انتطامیہ اس واقعے کانوٹس لے کر بلوچ طالب علموں پر تشدد کرنے والے سیاسی پارٹی کے ونگ کے خلاف قانونی کاروائی کریں۔تعلیمی اداروں میں پرتشدد واقعات کا مسلسل بلوچ طلباء پر رونما ہونا اور ان کی واقعات پر تعلیمی اداروں کے انتظامیہ کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے اور اس طرح کے خاموشیاں ڈانڈا بردار فورسز کے حوصلوں کو تقویت پہنچا رہی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ اس پہلے بھی پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طالب علموں پر کئی بار حملہ ہوا ہے اپریل 2018 میں بھی مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی جانب سے کئی غنڈوں کے ہمراہ بلوچ طالب علموں کو بہاوالدین زکریا یونیورسٹی میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور اب ایک مرتبہ پھر سیاسی سرپرستی کی آڑ میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی جانب سے حملہ بلوچ طالب علموں پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کے مترادف ہے اور حالیہ حملے میں اسی تنظیم کی جانب سے بدمعاشی کے ساتھ جئے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہوئے بلوچ طالب علموں پر وار کرتے رہے جس سے کئی طالب علم زخمی ہوئے اور ایک بلوچ طالب علم کے سر پر بھی شدید چوٹیں آئیں۔حالانکہ آؤٹ سائیڈرز کا یونیورسٹی کے اندر داخل ہوکر طالب علموں پر تشدد کرنا اور تیسری مرتبہ معائدہ کرنے کے باوجود معائدے کی خلاف ورزی کرنا تعلیمی اداروں میں غنڈہ گردی کے کلچر کو عام کرنے کی کوشش ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں وزیر اعلی پنجاب،وزیر اعلی بلوچستان اوریونیورسٹی انتظامیہ سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ملتان میں بلوچ طالب علموں پر تشدد میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور بلوچ طالبعلموں کو تعلیمی اداروں میں تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ اپنے تعلیمی سلسلے کو پرامن طریقے سے جاری رکھ سکیں۔