دوشنبه, اکتوبر 7, 2024
Homeآرٹیکلزبلوچ طلباء سیاست میں کشمکش

بلوچ طلباء سیاست میں کشمکش

تحریر: احتشام بلوچ
ہمگام کالم:
بلوچستان کی سیاسی و سماجی تبدیلی میں طلبا کا مرکزی کردار رہا ہے۔ بلوچ قومی سماج و سیاست کی بہتر سمت متعین کرنے میں بلوچ طلبا تنظیمیں اور تحریکیں ہراول دستے کا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ بلوچ طلبا نے عملی سیاست کا باقاعدہ منظم آغاز سن 1967 میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) کے پلیٹ فام سے کیا۔ اس سے قبل طلبا مختلف اکیڈمک گروہوں میں منقسم تھے۔ بی ایس او نے دہائیوں تک جہاں بلوچ طلبا کی سیاسی و شعوری تربیت کے لیے ایک مادرِ علمی کا کام کیا، وہیں مختلف ادوار میں شکست و ریخت کے عمل سے بھی گزرتا رہا۔  اور پھر مختلف اندرونی و بیرونی عوامل کی وجہ سے طلباء کی اس سیاسی و انقلابی قوت کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا جو تاحال دوبارہ اپنی قوت مجتمع کرنے میں ناکام رہا ہے۔
بلوچ طلبا سیاست کی زوال پزیری کے اسباب و محرکات کئی سارے ہیں۔ جو شواہدات کے ساتھ قوم دوست طلبا کے سامنے تفصیل سے بیان کرنا ضروری ہیں۔ تاکہ وہ اپنی سیاسی سمت درست کر سکیں۔ لیکن بارہا یہی خیال آتا ہے کہ چلو چھوڑیں، شاید یہ سب گذرتے وقت کے ساتھ خود بخود ٹھیک ہو، یا کہیں اس بےجا بحث سے سیاست میں نئے قدم رکھنے والے طلبا کنفیوز ہو کر سیاسی عمل سے ہی دستبردار نہ ہوجائیں۔
لیکن کچھ سیاسی منافع خور اپنی حرکات سے باز رہنے کے بجائے طلبا کو غور فکر سے محروم کرکے سیاست میں ان کے فاعلی کردار کو مفعولی کردار کے طرف دھکیل کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ فاعلی کردار میں طلبا اپنی پالیسی ترتیب دینے کے ساتھ ساتھ ایک مکالماتی سیاست کے جانب گامزن ہوتے ہیں، یہی ترقی پسندانہ سیاست ہے، اور انقلابی تبدیلی کیلے اولین شرط ہے جسے آج کی بحرانی کیفیت میں اپنانا انتہائی ضروری ہے ۔ مفعولی سیاست واضح ہے جس میں طلباء کو سیاسی عمل مین ایک شئے کے مانند رکھا جاتا ہے جو ہمیشہ خاموش رہ کر فرمانبرداری سے دئیے گئے ہدایات کی پابندی کریں۔
حالانکہ پالوفرائرے اپنی مشہور کتاب ”تعلیم اور مظلوم عوام“ میں کہتا ہے کہ استبدادی صورت حال کی تبدیلی کے عمل میں مظلومین کو غور فکر سے محروم کرنا خود انقلاب کی نفی ہے۔۔۔ محض اپنے الفاظ دوسروں کے منہ میں ٹھونسنا اپنے مقاصد اور طریقہ کار میں تضاد پیدا کرنا ہے۔ اور قائدین کا عمل اور غور وفکر مظلومین کے عمل اور غور و فکر کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔
جبکہ یہاں سوال کرنے کی صلاحیت ختم کردی گئی ہے۔ اختلافِ راۓ کو تنظیم کے منشور سے رو گردانی کہا جاتا ہے۔ اس لیے کارکنوں کو طریقہ کار پر سوال کرنے کی اجازت نہیں۔ اگر اس مفعولی کردار میں کبھی کسی نے سوال کیا بھی سب سے پہلے اسے چپ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پھر بھی وہ اپنے اس عمل سے باز نہ آئے تو اسے دھمکانے اور ڈرانے کے ساتھ اس پر غداری اور قوم دشمنی کے لیبل لگا کر مستقل طور پر اُس کی زبان بند  کرائی جاتی ہے۔ اِس طرح سے اُس کی سیاسی کیرئیر پر ایسا دھبہ لگ جاتا ہے کہ آئندہ وہ سوال کرنے کی جرات تک نہیں کرتا۔ اگر سوال کرے بھی تو اُس کی حیثیت ایک  قوم دشمن کی سی ہوتی ہے۔ مزید دوسرے کارکنوں کی جانب سے ایسے تمام سوالات کو خاموشی سے ٹال دیا جاتا ہے۔
مگر خاموشی سے شرمندگی کو تو ٹالا جاسکتا ہے لیکن تنظیمی امور و منشور پر کیے گئے سوالات ٹل نہیں جاتے، بلکہ ادھار رہتے ہیں۔
یقیناً تنظیم میں اختلاف رائے کو ختم کرنا جدلیاتی فلسفے سے انکار کے مترادف ہے۔ قدیم یونانی فلاسفرز اس نظریہ کے قائل تھے سوچ کے تضاد سے ہی ہم درست سوچ و فکر تک پہنچ پاتے ہیں۔ بعد میں ہیگل نے مزید اس نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نا صرف انسانی فکر میں جدلیاتی عمل کارفرما رہتا ہے بلکہ قدرت، انسانی تاریخ اور سماجی تعلقات میں تبدیلی کی وجہ بھی یہی عینت پسند جدلیات ہے۔ بعد میں مارکس نے اسی جدلیاتی عمل کی مادی و سائنسی بنیادوں پر آفاقی تشریح کی۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فکر و عمل کی راہ میں بندھ باندھنے سے انہیں روکا نہیں جا سکتا۔ اختلافِ راۓ، سوال، دلیل یہ سب اس فطری جدلیاتی عمل کاحصہ ہیں جن کا پنپنا سیاسی شعور کی ترقی کے لیے لازم ہے۔
چین کے انقلابی لیڈر کامریڈ ماؤ کہتے ہیں پارٹی میں مختلف نوعیت کے خیالات میں مسلسل کشمکش ہوتی ہے۔ یہ تضادات اصل میں سماجی طبقات اور جدید و قدیم کے مابین موجود تضادات کا عکس ہوتے ہیں۔ اگر پارٹی میں تضادات نہ ہوں اور ان تضادات کو حل کرنے کی نظریاتی جدوجہد نہ ہو تو پارٹی کی نشوونما ممکن ہی نہیں رہتی۔
سب سے افسوسناک صورتحال حال یہ ہے کہ یہ سب سیاسی منافع خور اور اس کے ایجنٹ قوم دوستی کے جذبے میں کرتے ہیں۔ اور پھر چودہ انچ سینہ چوڑا کرکے ہوٹل میں چائے کی چسکی لیکر  کہتے ہیں کہ ھم نے اپنا قومی فریضہ ادا کیا ۔
اب اِن سیاسی منافع خوروں نے ہر طلباء سیاسی و غیر سیاسی پلیٹ فارم پر اپنا یہ مکروہ عمل تیزی سے شروع کروایا ہے، جو نہ سیاست سمجھتے ہیں نہ سیاسی زبان۔ اگر اب بھی وہ اس خام خیالی میں ہیں کہ سیاسی گراؤنڈ ہمارے ہاتھ میں ہے، ہم جو چاہیں کر لیں گے، کوئی بھی الزام لگا کر دوسروں کو سیاسی عمل سے کنارہ کش کروائیں گے تو پھر خیر کی امید نہ رکھیں۔ جتنے سیاسی اخلاقیات کے حدود آپ نے پار کیے ہیں، اتنا ہی شدت سے آپ کے مکروہ عزائم کا پردہ فاش کرکے جواب دیا جائے گا ۔
کامریڈ ماؤزے تنگ کے مطابق ہم انقلابی مچھلیاں ہیں اور عوام سمندر ہیں۔ جب تک ہم سمندر میں تیر سکتے ہیں تب تک ہم زندہ ہیں۔ اب خدا نہ کرے کہ آپ اپنی کمزیارں ختم نہ کریں اور آپ ہر جگہ آپ کی زیرپرستی میں پلنے والے نابالغ غیرسیاسی اذہان کی سینہ زوری اور جابرانہ رویہ سے تنگ آکر سمندر  تمہیں ساحل پر نہ پھینک دے۔
اور اُن ذمہ داران سے یہ عرض کرنا چاھتا ہوں کہ جناب بقول ایک انقلابی دانشور کے انقلاب کسی کے اوپر تھونپا نہیں جاسکتا اور نہ بند کمروں سے ہوتا ہے۔ بلکہ انقلاب عوامی ہوتا ہے، عوام میں رہ کر عوام کو ساتھ لے کر انقلاب برپا کیا جاتا ہے۔ عوام کی ایک جم غفیر کے اذہان میں کوئی بھی مبہم سیاسی نعروں سے تبدیلی نہیں لاسکتا۔
انقلاب کیلئے ضروری ہے  منشور واضح ہو۔ بغیر عوامی سیاسی سمت اور منشور کے انقلاب ناممکن ہے۔ محض ایسوسی ایشنز، ٹریڈ یونینز، کمیٹیز اور کونسلز میں گھس کر اُن کو ہائی جیک کرنے سے نہ انقلاب آسکتا ہے نہ انقلابیں جنم لے سکتے ہیں۔
المختصر، اب ضروری ہے کہ طلبا اپنی قوت کو خود پہچانیں۔ سیاست سیکھیں اور ایسے سیاسی منافع خوروں کی باتوں سے نکل کر خود سامنے آجائیں۔ کب تک ان کے پالے پوسے ہوۓ غیرسنجیدہ لوگ ہماری ذات پر کیچڑ اچھال کر  ہمیں خاموش کرائیں گے۔ اور اگر ہمارے ساتھ آپ کے اختلافات نظریاتی ہیں تو پھر نظریاتی اختلافات کو مکالمے اور دلیل سے سلجھایا جاتا ہے، پروپیگنڈے اور غیر نظریاتی لابیینگ سے نہیں۔ اپنے اندر مکالمے کی سکت پیدا کریں۔ بند کمروں سے قوم دشمنی کے القابات دینے کے بجاۓ سیاسی انداز میں سنجیدگی کے ساتھ بات کریں۔ وگرنہ آپ کی غیر عوامی و غیر سنجیدہ سیاسی بساط کے ختم ہونے میں شاید زیادہ وقت نہ لگے۔
یہ بھی پڑھیں

فیچرز