شال (ہمگام نیوز) بساک کے ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچستان ایک سنگین انسانی بحران سے گزررہی ہے بیانیے اور طاقت کی اس کشمکش میں سب سے زیادہ وہ طبقات متاثر ہورہے ہیں جنہیں اس کشمکش سے دور دور تک کا واسطہ نہیں۔ بلوچ عوام دوہری جبر کا شکار ہوکر ایسے غیریقینی صورتحال سے دوچار ہے جس کی مستقبل قریب میں کوئی اختتام دکھائی نہیں دیتا۔ آئے روز کی جبری گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں، فیک انکاؤنٹرز نے بلوچستان کی روح کو جنجھوڑ کررکھ دیا ہے زندہ رہنے اور زندگی کا حق مانگنا جرم بن چکا ہے پرامن آوازوں کو پابند سلاسل کیا جارہا ہے طالب علموں کو جبری گمشدہ کیا جارہا ہے جبکہ دور دراز علاقوں میں آئے روز فیک انکاؤنٹرز میں حیران کن حد تک اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ دوسری جانب صاحب اقتدار اور طاقت کے رکھوالے ہرروز بلوچستان کو مزید تکالیف سے دوچار کرنے کی پرچار کررہے ہیں جبکہ ملکی اور غیرملکی میڈیا مکمل خاموشی اختیار کرچکی ہے اور انسانی حقوق کے تنظیموں کی جانب سے بھی مکمل خاموشی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ حالیہ کچھ عرصے سے بلوچ طالبعلموں، سیاسی کارکنوں اور دیگر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی جبری گمشدگیوں میں حیران کن حد تک اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ شب کراچی ہزارہ گوٹھ سے کراچی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اور ایل ایل ایم داخلے کی تیاری کرنے والے طالبعلم زکریا اسماعیل کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا جن کی تاحال کوئی بھی معلومات خاندان یا رشتہ داروں کو مہیا نہیں کی گئی۔ جبکہ اسی ہفتے، خضدار، کوئٹہ، مستونگ، کراچی اور بلوچستان کے دیگر شہروں سے درجنوں طالبعلم جبری گمشدگی کا شکار بنائے گئے ہیں۔ بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی طالبعلموں کی جبری گمشدگیوں میں اضافے کو تشویش کی نظر سے دیکھتی ہے اور متعلقہ حکام سے اپیل کرتی ہے زکریا اسماعیل سمیت تمام جبری گمشدہ افراد کو بازیاب کیا جائے اور جبری گمشدگی جیسے غیرانسانی اور غیرآئینی عمل کو مکمل طور پر بند کیاجائے۔